باب: جب کوئی صدقہ وصول کرنے والا حد سے تجاوز کرے تو؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: When There Is An Infraction In The Sadaqah (Collected))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2460.
حضرت جریر ؓ سے روایت ہے کہ کچھ اعرابی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! آپ کی طرف سے زکاۃ وصول کرنے والے لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور وہ ظلم کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”صدقہ وصول کرنے والوں کو راضی کرو۔“ انھوں نے کہا: اگرچہ وہ ظلم کرے؟ آپ نے فرمایا: ”صدقہ وصول کرنے والوں کو راضی کرو۔“ وہ پھر کہنے لگے: اگرچہ وہ ظلم کرے؟ آپ نے فرمایا: ”صدقہ وصول کرنے والوں کو راضی کرو۔“ حضرت جریر ؓ نے کہا: جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ بات سنی تو میرے پاس سے کوئی صدقہ وصول کرنے والا شخص ناراض ہو کر نہیں گیا، بلکہ خوش خوش گیا۔
تشریح:
عام لوگ زکاۃ کی مقدار کی تفصیلات سے آگاہ نہیں ہوتے، اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ زکاۃ وصول کرنے والا زیادہ لے رہا ہے۔ ویسے بھی زکاۃ دیتے وقت یہ احساس غالب رہتا ہے، س لیے آپ نے زکاۃ کے تعین کا اختیار عوام الناس کو نہیں دیا بلکہ وصول کرنے والوں کو یہ اختیار دیا کیونکہ وہ زکاۃ کی تفصیلات سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ لوگوں کو حکم دیا گیا کہ ان کے مطالبے کے مطابق انھیں زکاۃ ادا کریں۔ اگر کوئی شکایت ہو تو حاکم بالا کے پاس جائیں اور فیصلہ حاصل کریں۔ لیکن اگر ہر آدمی کو مزاحمت کا اختیار دے دیا جائے تو انتظامی افراتفری پھیل جائے گی اور ملک ابتری کا شکار ہو جائے گا۔ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ زکاۃ وصول کرنے والوں کے من مانی کی اجازت ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وقد أخرجه بإسناد اخر) .
إسناده: حدثنا أبو كامل: ثنا عبد الواحد - يعني : ابن زياد-. (ح) وثنا
عثمان بن أبي شيبة: ثنا عبد الرحيم بن سليمان- وهذا حديث أبي كامل- عن
محمد بن أبي إسماعيل: ثنا عبد الرحمن بن هلال العَبْسِيَّ عن جرير بن
عبد الله.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال مسلم؛ وقد أخرجه كما
يأتي.
والحديث أخرجه مسلم (3/74) ... بإسناد المصنف الأول.
وبإسناد آخر عن عبد الرحيم بن سليمان... به.
وأخرجه البيهقي (4/137) عن المصنف... بإسناديد.
ومسلم أيضا، والنسائي (1/341) ، وأحمد (4/362) من طرق أخرى عن
محمد بن أبي إسماعيل... به.
ثم أخرجه مسلم (3/121) ، وابن أبي شحبة (3/115) ، والنسائي، والترمذي
(647 و 648) ، والدارمي، (1/394) ، والبيهقي، وأحمد (4/360 و 364 و 365)
من طريق الشعبي عن جرير بن عبد الله... به نحوه؛ وزاد ابن أبي شيبة:
وقال الشعبي: المعتدي في الصدقة كمانعها.
وسنده صحيح على شرط مسلم.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2461
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2459
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2462
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت جریر ؓ سے روایت ہے کہ کچھ اعرابی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! آپ کی طرف سے زکاۃ وصول کرنے والے لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور وہ ظلم کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”صدقہ وصول کرنے والوں کو راضی کرو۔“ انھوں نے کہا: اگرچہ وہ ظلم کرے؟ آپ نے فرمایا: ”صدقہ وصول کرنے والوں کو راضی کرو۔“ وہ پھر کہنے لگے: اگرچہ وہ ظلم کرے؟ آپ نے فرمایا: ”صدقہ وصول کرنے والوں کو راضی کرو۔“ حضرت جریر ؓ نے کہا: جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ بات سنی تو میرے پاس سے کوئی صدقہ وصول کرنے والا شخص ناراض ہو کر نہیں گیا، بلکہ خوش خوش گیا۔
حدیث حاشیہ:
عام لوگ زکاۃ کی مقدار کی تفصیلات سے آگاہ نہیں ہوتے، اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ زکاۃ وصول کرنے والا زیادہ لے رہا ہے۔ ویسے بھی زکاۃ دیتے وقت یہ احساس غالب رہتا ہے، س لیے آپ نے زکاۃ کے تعین کا اختیار عوام الناس کو نہیں دیا بلکہ وصول کرنے والوں کو یہ اختیار دیا کیونکہ وہ زکاۃ کی تفصیلات سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ لوگوں کو حکم دیا گیا کہ ان کے مطالبے کے مطابق انھیں زکاۃ ادا کریں۔ اگر کوئی شکایت ہو تو حاکم بالا کے پاس جائیں اور فیصلہ حاصل کریں۔ لیکن اگر ہر آدمی کو مزاحمت کا اختیار دے دیا جائے تو انتظامی افراتفری پھیل جائے گی اور ملک ابتری کا شکار ہو جائے گا۔ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ زکاۃ وصول کرنے والوں کے من مانی کی اجازت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جریر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ دیہات کے لوگ آئے، اور انہوں نے آپ سے عرض کیا: آپ کے بھیجے ہوئے کچھ محصل زکاۃ ہمارے پاس آتے ہیں جو ہم پر ظلم کرتے ہیں ، تو آپ نے فرمایا: ”اپنے زکاۃ وصول کرنے والوں کو راضی و مطمئن کرو“، انہوں نے عرض کیا: اگرچہ وہ ظلم کریں۔ آپ نے فرمایا: ”اپنے زکاۃ وصول کرنے والوں کو راضی کرو“، انہوں نے پھر عرض کیا: اگرچہ وہ ظلم کریں؟ آپ نے فرمایا: ”اپنے زکاۃ وصول کرنے والوں کو راضی کرو۔“ جریر ؓ کہتے ہیں: جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ بات سنی اسی وقت سے کوئی محصل زکاۃ میرے پاس سے راضی ہوئے بغیر نہیں گیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that ‘Abdur Rahman bin Hilal said: “Jarir said: ‘Some Bedouin people came to the Prophet (ﷺ) and said: Messenger of Allah, some of your Zakah collectors come to us and they are unfair. He said: Keep your Zakah collectors happy. They said: Even if they are unfair? He said: Keep your Zakah collectors happy. Then they said: Even if they are unfair. He said: Keep your Zakah collectors happy. Jarir said: ‘No Zakah collector left me, since I heard this from the Messenger of Allah (ﷺ) but he was pleased with me.” (Sahih)