باب: مالک زکا ۃ اپنی مرضی سے دے گا ‘صدقہ لینے والا اپنی مرضی نہیں کرے گا
)
Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Owner Giving Something Without The Zakah Collector Choosing It)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2464.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ”رسول اللہﷺ نے زکاۃ کی ادائیگی کا حکم دیا۔ آپ سے کہا گیا کہ ابن جمیل، حضرت خالد بن ولید اور حضرت عباس بن عبدالمطلب نے زکاۃ نہیں دی۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”ابن جمیل تو اس لیے ناراض ہے کہ وہ فقیر تھا، اللہ تعالیٰ نے اسے مال دار بنا دیا۔ رہا خالد بن ولید تو تم خالد پر ظلم کرتے ہو۔ انھوں نے تو اپنی زرہیں اور دوسرا جنگی ساز وسامان اللہ تعالیٰ کے راستے میں وقف کر رکھا ہے۔ باقی رہے رسول اللہﷺ کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب تو ان کی زکاۃ رسول اللہﷺ کے ذمے ہے بلکہ اس کے ساتھ اتنی اور ہے۔“
تشریح:
(1) ”ابن جمیل“ یہ منافق شخض تھا۔ زکاۃ کو تاوان سمجھتا تھا، اس لیے آپ نے اس کے متعلق یہ الفاظ فرمائے۔ کہتے ہیں کہ بعد میں اس نے توبہ کر لی تھی۔ (2) ”وقف کر رکھا ہے۔“ گویا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے جنگی ساز وسامان کی زکاۃ طلب کی تھی کہ شاید یہ مال تجارت کے لیے ہے، حالانکہ وہ تو فی سبیل اللہ وقف تھا اور وقف مال میں زکاۃ نہیں ہوتی۔ یا نبی اکرم ﷺ کا مطلب یہ ہے کہ خالد تو اس قدر مخلص ہیں کہ انھوں نے اپنا سارا جنگی سامان وقف کر رکھا ہے، وہ زکاۃ سے انکار کیسے کر سکتے ہیں؟ یہ مطلب بھی تو ہو سکتا ہے کہ انھوں نے زکاۃ کی رقم سے جنگی سامان خرید کر وقف کر دیا ہے، لہٰذا ان سے زکاۃ نہ مانگی جائے۔ (3) بعض دوسری روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے رسول اللہﷺ دو سال کی زکاۃ کسی ملکی ضرورت کی وجہ سے پیشگی وصول کر چکے تھے، لہٰذا یہ صراحت فرمائی ورنہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ زکاۃ سے کیسے انکار کر سکتے تھے؟
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجه مسلم بتمامه.
وصحح الترمذي الجملةَ الأخيرةَ منه. وأخرجه البخاري بنحوه- دون الجملة
المذكورة- بلفظ: " فهي عليه "، وهو الأرجح) .
إسناده: حدثنا الحسن بن الصبَّاح: ثنا شَبَابَةُ عن وَرْقَاءَ عن أبي الزناد عن
الأعرج عن أبي هريرة.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ وقد أخرجه
مسلم كما يأتي.
والحديث أخرجه مسلم وأحمد وغيرهما من طرق أخرى عن ورقاء... به.
والبخاري وغيره من طريق شعيب بن أبي حمزة عن أبي الزناد... به نحوه؛
دون قوله: " أما شعرت... "؛ وقال:
" فهي عليه صدقة، ومثلها معها "؛ مكان قوله: " فهي علي ومثلها ".
وهو الأرجح عندي؛ لأن لشعيب فيه متابِعَيْنِ عليه، ذكرتهما في " الإرواء"
(858) ، وخرجت أحاديثهم، وما رجحه البيهقي هناك.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2465
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2463
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2466
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ”رسول اللہﷺ نے زکاۃ کی ادائیگی کا حکم دیا۔ آپ سے کہا گیا کہ ابن جمیل، حضرت خالد بن ولید اور حضرت عباس بن عبدالمطلب نے زکاۃ نہیں دی۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”ابن جمیل تو اس لیے ناراض ہے کہ وہ فقیر تھا، اللہ تعالیٰ نے اسے مال دار بنا دیا۔ رہا خالد بن ولید تو تم خالد پر ظلم کرتے ہو۔ انھوں نے تو اپنی زرہیں اور دوسرا جنگی ساز وسامان اللہ تعالیٰ کے راستے میں وقف کر رکھا ہے۔ باقی رہے رسول اللہﷺ کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب تو ان کی زکاۃ رسول اللہﷺ کے ذمے ہے بلکہ اس کے ساتھ اتنی اور ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”ابن جمیل“ یہ منافق شخض تھا۔ زکاۃ کو تاوان سمجھتا تھا، اس لیے آپ نے اس کے متعلق یہ الفاظ فرمائے۔ کہتے ہیں کہ بعد میں اس نے توبہ کر لی تھی۔ (2) ”وقف کر رکھا ہے۔“ گویا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے جنگی ساز وسامان کی زکاۃ طلب کی تھی کہ شاید یہ مال تجارت کے لیے ہے، حالانکہ وہ تو فی سبیل اللہ وقف تھا اور وقف مال میں زکاۃ نہیں ہوتی۔ یا نبی اکرم ﷺ کا مطلب یہ ہے کہ خالد تو اس قدر مخلص ہیں کہ انھوں نے اپنا سارا جنگی سامان وقف کر رکھا ہے، وہ زکاۃ سے انکار کیسے کر سکتے ہیں؟ یہ مطلب بھی تو ہو سکتا ہے کہ انھوں نے زکاۃ کی رقم سے جنگی سامان خرید کر وقف کر دیا ہے، لہٰذا ان سے زکاۃ نہ مانگی جائے۔ (3) بعض دوسری روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے رسول اللہﷺ دو سال کی زکاۃ کسی ملکی ضرورت کی وجہ سے پیشگی وصول کر چکے تھے، لہٰذا یہ صراحت فرمائی ورنہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ زکاۃ سے کیسے انکار کر سکتے تھے؟
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ عمر ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے زکاۃ کا حکم کیا۔ تو آپ سے کہا گیا: ابن جمیل، خالد بن ولید، اور عباس بن عبدالمطلب ( ؓ) نے (زکاۃ) نہیں دی ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ابن جمیل زکاۃ کا انکار اس وجہ سے کرتا ہے کہ وہ محتاج تھا تو اللہ تعالیٰ نے اسے مالدار بنا دیا۔ اور رہے خالد بن ولید تو تم لوگ خالد پر زیادتی کر رہے ہو، انہوں نے اپنی زرہیں اور اسباب اللہ کی راہ میں وقف کر دی ہیں، اور رہے رسول اللہ ﷺ کے چچا عباس بن عبدالمطلب، تو یہ زکاۃ تو ان پر ہے ہی۔ مزید اتنا اور بھی دیں گے۔“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : مسلم کی روایت کے الفاظ ہیں «فَھِیَ عَلَیَّ» اس کا مفہوم یہ ہے کہ رہے عباس رضی الله عنہ تو ان کی زکاۃ میرے ذمہ ہے اور اسی کے مثل اور، یعنی میں ان سے دو سال کی زکاۃ پہلے ہی لے چکا ہوں اس لیے اس کی ادائیگی میں کروں گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah said: “Umar said: ‘The Messenger of Allah (ﷺ) enjoined Sadaqah and it was said that Ibn Jamil, Khalid bin Al-Walid and Abbas bin 'Abdul-Muttalibhad withheld some. The Messenger of Allah (ﷺ) said: What is the matter with Ibn Jamil? Was he not poor then Allah made him rich? As for Khalid bin Al-Walid, you are being unfair to Khalid, for he is saving his shields and weapons for the sake of Allah. As for Al-’Abbas bin ‘Abdul-Muttalib, the paternal uncle of the Messenger of Allah (ﷺ) it is an obligatory charity for him and he has to pay as much again.” (Sahih)