Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Zakah On Wheat)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2484.
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے منقول ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”گندم اور کھجور میں زکاۃ (عشر واجب نہیں ہوتی حتیٰ کہ وہ پانچ وسق ہو جائیں۔ اور چاندی میں زکاۃ واجب نہیں ہوتی حتیٰ کہ وہ پانچ اوقیے (دو سو درہم ہو جائیں۔ اور اونٹوں میں زکاۃ واجب نہیں ہوتی حتیٰ کہ وہ پانچ ہو جائیں۔“
تشریح:
یعنی مذکورہ مقادیر یا ان سے زائد میں زکاۃ واجب ہوگی، ان سے کم میں نہیں۔ اس سے زیادہ صریح روایت کیا ہوگی؟ مگر احناف پھر بھی غلے اور کھجور کے قلیل وکثیر میں زکاۃ کے وجوب کے قائل ہیں۔ وہ اس حدیث کے معنیٰ کرتے ہیں کہ حکومت نہیں لے گی۔ (یعنی قلیل میں)ُ البتہ مالک خود فقراء کو ادا کریں۔ مگر باقی دو، یعنی اونٹوں اور چاندی میں وہ اس مفہوم کے قائل نہیں، لہٰذا یہ مسلک درست نہیں۔ اور یوں زکاۃ کی ادائیگی کی دو شکلیں اختراع کرنا شریعت نہیں، بلکہ ایجاد بندہ ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2485
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2483
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2486
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے منقول ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”گندم اور کھجور میں زکاۃ (عشر واجب نہیں ہوتی حتیٰ کہ وہ پانچ وسق ہو جائیں۔ اور چاندی میں زکاۃ واجب نہیں ہوتی حتیٰ کہ وہ پانچ اوقیے (دو سو درہم ہو جائیں۔ اور اونٹوں میں زکاۃ واجب نہیں ہوتی حتیٰ کہ وہ پانچ ہو جائیں۔“
حدیث حاشیہ:
یعنی مذکورہ مقادیر یا ان سے زائد میں زکاۃ واجب ہوگی، ان سے کم میں نہیں۔ اس سے زیادہ صریح روایت کیا ہوگی؟ مگر احناف پھر بھی غلے اور کھجور کے قلیل وکثیر میں زکاۃ کے وجوب کے قائل ہیں۔ وہ اس حدیث کے معنیٰ کرتے ہیں کہ حکومت نہیں لے گی۔ (یعنی قلیل میں)ُ البتہ مالک خود فقراء کو ادا کریں۔ مگر باقی دو، یعنی اونٹوں اور چاندی میں وہ اس مفہوم کے قائل نہیں، لہٰذا یہ مسلک درست نہیں۔ اور یوں زکاۃ کی ادائیگی کی دو شکلیں اختراع کرنا شریعت نہیں، بلکہ ایجاد بندہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”گیہوں اور کھجور میں زکاۃ نہیں یہاں تک کہ وہ پانچ وسق کو پہنچ جائے، اسی طرح چاندی میں زکاۃ نہیں یہاں تک کہ وہ پانچ اوقیہ کو پہنچ جائے۔ اور اونٹ میں زکاۃ نہیں ہے یہاں تک کہ وہ پانچ کی تعداد کو پہنچ جائیں۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Sa'eed AI-Khudri that the Messenger of Allah (ﷺ) said: “No Zakah is due on wheat or dates unless the amount reaches five Awsuq. No Zakah is due on silver unless the amount reaches five Awaq. No Zakah is due on camels until the number reaches five Dhawd.” (Sahih)