Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: On What One-Tenth Is Due, And on What One-Half Of One-Tenth Is Due)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2488.
حضرت سالم اپنے والد (حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس فصل کو بارش، نہریں یا چشمے سیراب کریں یا وہ نمی والی ہو، اس میں دسواں حصہ زکاۃ واجب ہے۔ اور جس فصل کو اونٹوں اور ڈول (راہٹ وغیرہ کے ذریعے سے سیراب کیا جائے، اس میں بیسواں حصہ زکاۃ واجب ہے۔“
تشریح:
(1) اس سے ماقبل احادیث میں عشر والی فصل کا نصاب بیان کیا گیا تھا کہ کتنی فصل میں زکاۃ آئے گی؟ اس حدیث میں اس کی مقدار بیان کی گئی ہے کہ کتنی زکاۃ آئے گی؟ (2) باقی تمام چیزوں میں زکاۃ سال کے بعد واجب ہوتی ہے، مثلاً: جانور، سونا، چاندی، رقم اور سامان تجارت، مگر غلہ اور پھلوں، یعنی فصل کی زکاۃ اس کی پیداوار کے موقع پر ہوتی ہے، اس کے لیے ایک سال کی قید نہیں۔ عموماً ہر فصل سال میں ایک دفعہ ہی ہوتی ہے، اس لیے گویا اس میں بھی زکاۃ سال بعد ہی ہوئی، البتہ ادائیگی فصل کی کٹائی کے موقع ہی پر واجب ہوتی ہے۔ (3) جانوروں کی زکاۃ مخصوص ہے جو تفصیل سے پیچھے بیان ہوئی سونا، چاندی، رقم اور سامان تجارت کی زکاۃ کل مالیت کا چالیسواں حصہ ہوتی ہے لیکن فصل کی زکاۃ دسواں اور بیسواں حصہ ہوتی ہے اور اسے عموماً عشر کہا جاتا ہے۔ (4) فصل کی زکاۃ پانی کے لحاظ سے ہے۔ چونکہ فصل پانی کے بغیر نہیں ہوتی، لہٰذا پانی کا لحاظ ناگزیر تھا۔ اس سلسلے میں ضابطہ یہ ہے کہ جس پانی کے مہیا کرنے میں کوئی مشقت نہ ہو اور نہ اخراجات کرنے پڑتے ہوں، اس سے سیراب ہونے والی فصل کا دسواں حصہ (عشر بطور زکاۃ دینا ہوگا، مثلاً: بارش، دریاؤں، اور چشموں کا پانی اپنے آپ نظام کائنات کے تحت فصل تک پہنچتا ہے، صرف پانی کو روکنا، موڑنا اور کھولنا ہی پڑتا ہے اور یہ کوئی مشقت نہیں، کوئی زیادہ اخراجات بھی نہیں آتے، لہٰزا اس میں زکاۃ کی مقدار زیادہ رکھی گئی۔ اور جس پانی کے مہیا کرنے میں زیادہ مشقت ہو یا اخراجات کرنے پڑتے ہوں، اس سے سیراب ہونے والی فصل میں بیسواں حصہ (نصف عشر زکاۃ لاگو ہوگی، مثلاً: کنویں سے پانی نکالنا بہت مشقت کا کام ہے، خواہ ڈول کے ذریعے سے نکالا جائے یا جانور کے ذریعے سے یا ٹیوب ویلوں کے ذریعے سے۔ اسی طرح اگر پانی دور سے مشکیزوں یا برتنوں میں لا کر فصل سیراب کرنی پڑے تو بھی بہت مشقت ہے، نیز اس میں اخراجات بھی کرنے پڑتے ہیں اور جانوروں کو استعمال کرنا پڑتا ہے، لہٰذا ان میں زکاۃ کی مقدار کم رکھی گئی ہے۔ (5) بعض علاقوں میں نہری پانی ہوتا ہے، اپنے آپ پہنچتا ہے مگر آبیانہ دینا پڑتا ہے۔ اسی طرح اگر نہری پانی کے ساتھ ساتھ ٹیوب ویل کا پانی بھی لگانا پڑتا ہو جس میں بہت اخراجات آتے ہیں یا فصل صرف ٹیوب ویل کے ذریعے سے سیراب ہوتی ہو تو ان صورتوں میں بیسواں حصہ زکاۃ ہوگی۔ ٹیوب ویل، کنویں اور رہٹ کے حکم میں ہے۔ (6) زکاۃ کس فصل میں ہے؟ یہ کافی اختلافی مسئلہ ہے، البتہ غلہ جات پر عشر متفقہ ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے ہر اس فصل پر زکاۃ واجب کی ہے جو خوراک ہو اور اسے ذخیرہ کیا جا سکے۔ احناف نے ماپی اور تولی جانے والی چیز میں زکاۃ واجب کی ہے بشرطیکہ اسے ذخیرہ کیا جا سکے، خوراک ہونا ضروری نہیں۔ جمہور اہل علم نے ذخیرہ ہو سکنے کو شرط مانا ہے۔ باقی رہے وہ پھل اور سبزیاں جو ذخیرہ نہیں ہو سکتے، جمہور کے نزدیک ان میں عشر نہیں، البتہ جن پھلوں کو کسی طریقے سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے، ان میں عشر ہے، مثلاً: انگور کو منقیٰ کی صورت میں محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ خوبانیوں کو بھی خشک کیا جا سکتا ہے۔ کماد کو چونکہ چینی شکر اور گڑ کی صورت میں محفوظ کیا جا سکتا ہے، لہٰذا اس پر بھی عشر ہے۔ کپاس بھی قابل ذخیرہ چیز ہے، لہٰذا اس میں بھی عشر ہے، البتہ اس کے نصاب میں اختلاف ہے۔ اجتہاد کے ذریعے سے اس کے قلیل وکثیر میں فرق کیا جا سکتا ہے۔ چارہ وغیرہ جو جانوروں کے لیے کاشت کیا جاتا ہے، عشر سے مستثنیٰ ہے کیونکہ یہ وقتی ضرورت کے لیے ہے۔ (7) اس روایت کے ظاہر سے استدلال کرتے ہوئے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ زمین کی ہر قلیل اور کثیر پیداوار میں عشر ہے، مگر نصاب کے بارے میں صریح روایات اس استدلال کے خلاف ہیں۔ یہ بحث پیچھے گزر چکی ہے۔ جب باقی چیزوں، مثلاً: سونے، چاندی اور جانوروں وغیرہ میں نصاب معتبر ہے تو کیا وجہ ہے کہ فصل میں نصاب معتبر نہ ہو؟
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2489
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2487
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2490
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت سالم اپنے والد (حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس فصل کو بارش، نہریں یا چشمے سیراب کریں یا وہ نمی والی ہو، اس میں دسواں حصہ زکاۃ واجب ہے۔ اور جس فصل کو اونٹوں اور ڈول (راہٹ وغیرہ کے ذریعے سے سیراب کیا جائے، اس میں بیسواں حصہ زکاۃ واجب ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس سے ماقبل احادیث میں عشر والی فصل کا نصاب بیان کیا گیا تھا کہ کتنی فصل میں زکاۃ آئے گی؟ اس حدیث میں اس کی مقدار بیان کی گئی ہے کہ کتنی زکاۃ آئے گی؟ (2) باقی تمام چیزوں میں زکاۃ سال کے بعد واجب ہوتی ہے، مثلاً: جانور، سونا، چاندی، رقم اور سامان تجارت، مگر غلہ اور پھلوں، یعنی فصل کی زکاۃ اس کی پیداوار کے موقع پر ہوتی ہے، اس کے لیے ایک سال کی قید نہیں۔ عموماً ہر فصل سال میں ایک دفعہ ہی ہوتی ہے، اس لیے گویا اس میں بھی زکاۃ سال بعد ہی ہوئی، البتہ ادائیگی فصل کی کٹائی کے موقع ہی پر واجب ہوتی ہے۔ (3) جانوروں کی زکاۃ مخصوص ہے جو تفصیل سے پیچھے بیان ہوئی سونا، چاندی، رقم اور سامان تجارت کی زکاۃ کل مالیت کا چالیسواں حصہ ہوتی ہے لیکن فصل کی زکاۃ دسواں اور بیسواں حصہ ہوتی ہے اور اسے عموماً عشر کہا جاتا ہے۔ (4) فصل کی زکاۃ پانی کے لحاظ سے ہے۔ چونکہ فصل پانی کے بغیر نہیں ہوتی، لہٰذا پانی کا لحاظ ناگزیر تھا۔ اس سلسلے میں ضابطہ یہ ہے کہ جس پانی کے مہیا کرنے میں کوئی مشقت نہ ہو اور نہ اخراجات کرنے پڑتے ہوں، اس سے سیراب ہونے والی فصل کا دسواں حصہ (عشر بطور زکاۃ دینا ہوگا، مثلاً: بارش، دریاؤں، اور چشموں کا پانی اپنے آپ نظام کائنات کے تحت فصل تک پہنچتا ہے، صرف پانی کو روکنا، موڑنا اور کھولنا ہی پڑتا ہے اور یہ کوئی مشقت نہیں، کوئی زیادہ اخراجات بھی نہیں آتے، لہٰزا اس میں زکاۃ کی مقدار زیادہ رکھی گئی۔ اور جس پانی کے مہیا کرنے میں زیادہ مشقت ہو یا اخراجات کرنے پڑتے ہوں، اس سے سیراب ہونے والی فصل میں بیسواں حصہ (نصف عشر زکاۃ لاگو ہوگی، مثلاً: کنویں سے پانی نکالنا بہت مشقت کا کام ہے، خواہ ڈول کے ذریعے سے نکالا جائے یا جانور کے ذریعے سے یا ٹیوب ویلوں کے ذریعے سے۔ اسی طرح اگر پانی دور سے مشکیزوں یا برتنوں میں لا کر فصل سیراب کرنی پڑے تو بھی بہت مشقت ہے، نیز اس میں اخراجات بھی کرنے پڑتے ہیں اور جانوروں کو استعمال کرنا پڑتا ہے، لہٰذا ان میں زکاۃ کی مقدار کم رکھی گئی ہے۔ (5) بعض علاقوں میں نہری پانی ہوتا ہے، اپنے آپ پہنچتا ہے مگر آبیانہ دینا پڑتا ہے۔ اسی طرح اگر نہری پانی کے ساتھ ساتھ ٹیوب ویل کا پانی بھی لگانا پڑتا ہو جس میں بہت اخراجات آتے ہیں یا فصل صرف ٹیوب ویل کے ذریعے سے سیراب ہوتی ہو تو ان صورتوں میں بیسواں حصہ زکاۃ ہوگی۔ ٹیوب ویل، کنویں اور رہٹ کے حکم میں ہے۔ (6) زکاۃ کس فصل میں ہے؟ یہ کافی اختلافی مسئلہ ہے، البتہ غلہ جات پر عشر متفقہ ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے ہر اس فصل پر زکاۃ واجب کی ہے جو خوراک ہو اور اسے ذخیرہ کیا جا سکے۔ احناف نے ماپی اور تولی جانے والی چیز میں زکاۃ واجب کی ہے بشرطیکہ اسے ذخیرہ کیا جا سکے، خوراک ہونا ضروری نہیں۔ جمہور اہل علم نے ذخیرہ ہو سکنے کو شرط مانا ہے۔ باقی رہے وہ پھل اور سبزیاں جو ذخیرہ نہیں ہو سکتے، جمہور کے نزدیک ان میں عشر نہیں، البتہ جن پھلوں کو کسی طریقے سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے، ان میں عشر ہے، مثلاً: انگور کو منقیٰ کی صورت میں محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ خوبانیوں کو بھی خشک کیا جا سکتا ہے۔ کماد کو چونکہ چینی شکر اور گڑ کی صورت میں محفوظ کیا جا سکتا ہے، لہٰذا اس پر بھی عشر ہے۔ کپاس بھی قابل ذخیرہ چیز ہے، لہٰذا اس میں بھی عشر ہے، البتہ اس کے نصاب میں اختلاف ہے۔ اجتہاد کے ذریعے سے اس کے قلیل وکثیر میں فرق کیا جا سکتا ہے۔ چارہ وغیرہ جو جانوروں کے لیے کاشت کیا جاتا ہے، عشر سے مستثنیٰ ہے کیونکہ یہ وقتی ضرورت کے لیے ہے۔ (7) اس روایت کے ظاہر سے استدلال کرتے ہوئے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ زمین کی ہر قلیل اور کثیر پیداوار میں عشر ہے، مگر نصاب کے بارے میں صریح روایات اس استدلال کے خلاف ہیں۔ یہ بحث پیچھے گزر چکی ہے۔ جب باقی چیزوں، مثلاً: سونے، چاندی اور جانوروں وغیرہ میں نصاب معتبر ہے تو کیا وجہ ہے کہ فصل میں نصاب معتبر نہ ہو؟
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جسے نہر اور چشمے سینچیں یا جس زمین میں تری رہتی ہو۱؎ اس میں دسواں حصہ زکاۃ ہے۔ اور جو اونٹوں سے سینچا جائے یا ڈول سے اس میں بیسواں حصہ ہے۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی اسے سینچنے کی ضرورت نہ پڑتی ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Salim, from his father, that the Messenger of Allah (ﷺ) said: “For whatever is irrigated by the sky, rivers and springs, or draws up water from deep roots, one-tenth. For whatever is irrigated by animals and artificial means, one half of one-tenth.” (Sahih)