Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: On What One-Tenth Is Due, And on What One-Half Of One-Tenth Is Due)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2489.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس فصل کو بارش، نہریں اور چشمے سیراب کریں، اس میں دسواں حصہ زکاۃ ہے۔ اور جس فصل کو اونٹوں کے ذریعے سے سیراب کیا جائے، س میں بیسواں حصہ ہے۔“
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح على شرط البخاري. وقد أخرجه مسلم في
"صحيحه ". وقد صححه ابن الجارود والبيهقي) .
إسناده: حدثنا أحمد بن صالح: ثنا عبد الله بن وهب: أخبرني عمرو عن
أبي الزبير عن جابر بن عبد الله.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير أحمد بن
صالح- وهو المصري-؛ فإنه من رجال البخاري، وقد توبع.
لكن أبا الزبير مدلس، وقد عنعنه؛ إلا أنه قد صرح بالتحديث كما يأتي؛
فصح الحديث، والحمد لله.
والحديث أخرجه مسلم (3/67) ، وابن الجارود (347) ، وأحمد وغيرهم من
طرق كثيرة عن ابن وهب عن عمرو بن الحارث: أن أبا الزبير حدثه: أنه سمع جابر ابن عبد الله... به؛ وهو مخرج في "الإرواء" (799) .
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2490
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2488
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2491
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس فصل کو بارش، نہریں اور چشمے سیراب کریں، اس میں دسواں حصہ زکاۃ ہے۔ اور جس فصل کو اونٹوں کے ذریعے سے سیراب کیا جائے، س میں بیسواں حصہ ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو پیداوار آسمان کی بارش اور نہروں کے پانی سے ہو اس میں دسواں حصہ زکاۃ ہے، اور جو پیداوار جانوروں کے ذریعہ سینچائی کر کے ہو اس میں بیسواں حصہ ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jabir bin ‘Abdullah said: “The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘For that which is watered by the sky, rivers and springs, one-tenth. For whatever is irrigated by animals, one-half of one-tenth.” (Sahih)