Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: How Much Should The Estimator Leave?)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2491.
حضرت عبدالرحمن بن مسعود بن نیار سے روایت ہے کہ حضرت سہل بن ابی حثمہ ؓ ہمارے پاس بازار میں تشریف لائے اور کہنے لگے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ”جب تم (عشر وصول کرتے وقت فصل یا پھل کا اندازہ لگاؤ تو اندازے میں سے تیسرا حصہ چھوڑ دو۔ اگر تیسرا حصہ نہ چھوڑو تو چوتھا حصہ ضرور چھوڑ دو۔“
تشریح:
(1) حکومت جن فصلوں یا پھلوں کا عشر وصول کرتی تھی، ان میں طریقہ کار یہ تھا کہ فصل یا پھل پکنے سے پہلے سمجھ دار ماہر لوگ اندازہ لگانے کے لیے بھیجے جاتے جو یہ اندازہ لگاتے کہ فلاں آدمی کی فصل یا پھل اتنا ہونے کی توقع ہے۔ اسے ”خرص“ کہا جاتا تھا۔ (2) خرص کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ پھل یا فصل پکنے کے بعد مالک کھانے کھلانے میں آزاد ہوتا تھا۔ جو چاہے کھائے، دوسروں کو کھلائے۔ حکومت کٹائی کے موقع پر اندازے (خرص کے مطابق عشر وصول کر لیتی تھی۔ اس طریقے سے نہ مالک کو تنگی ہوتی تھی اور نہ حکومت کو اعتراض کا موقع ملتا تھا۔ (3) احناف خرص کے قائل نہیں کہ پتا نہیں اندازہ صحیح ہو یا نہ ہو۔ اس طرح کسی پر ظلم بھی ہو سکتا ہے، لہٰذا یہ سود والی علت کی بنا پر منع ہے، مگر وہ یہ بات نظر انداز کر گئے کہ اس میں فریقین کا فائدہ ہے۔ باقی رہا ظلم کا امکان تو اس کا حل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگلے الفاظ میں خود ہی تجویز فرما دیا ہے کہ اندازہ لگانے کے بعد تیسرے یا چوتھے حصے کی رعایت دی جائے، نیز خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیات طیبہ میں اور خلفائے راشدین اپنے اپنے ادوار مبارکہ میں اور عام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس پر عمل کرتے رہے ہیں۔ اگر یہ سود یا جوئے کے مشابہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قسم کا اقدام نہ فرماتے، اور نہ اس کی اجازت ہی مرحمت فرماتے۔ کیا مانعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ دین کے خیر خواہ یا ان سے زیادہ علم والے ہیں؟ دراصل شریعت لوگوں کی تنگی کا بھی لحاظ رکھتی ہے، جیسے بلی کے جوٹھے کا پلید نہ ہونا اس کی واضح دلیل ہے۔ (4) ”تیسرا حصہ چھوڑ دو۔“ کیونکہ ضروری نہیں اندازے کے مطابق ہی پیداوار ہو۔ جانور کھا جاتے ہیں، ناگہانی آفات سے فصل اور پھل کا نقصان ہو سکتا ہے، لوگ اور سائلین بھی کمی کا موجب بن سکتے ہیں، اس لیے مالک کو رعایت چاہیے۔ چونکہ حالات مختلف ہوتے ہیں، لہٰذا تیسرے یا چوتھے حصے یا ان کے مابین کمی کا اختیار دیا تاکہ کسی پر زیادتی نہ ہو۔ اگر زیادہ نقصان ہو جائے تو اس سے زیادہ بھی رعایت دینی پڑے گی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2492
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2490
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2493
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت عبدالرحمن بن مسعود بن نیار سے روایت ہے کہ حضرت سہل بن ابی حثمہ ؓ ہمارے پاس بازار میں تشریف لائے اور کہنے لگے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ”جب تم (عشر وصول کرتے وقت فصل یا پھل کا اندازہ لگاؤ تو اندازے میں سے تیسرا حصہ چھوڑ دو۔ اگر تیسرا حصہ نہ چھوڑو تو چوتھا حصہ ضرور چھوڑ دو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) حکومت جن فصلوں یا پھلوں کا عشر وصول کرتی تھی، ان میں طریقہ کار یہ تھا کہ فصل یا پھل پکنے سے پہلے سمجھ دار ماہر لوگ اندازہ لگانے کے لیے بھیجے جاتے جو یہ اندازہ لگاتے کہ فلاں آدمی کی فصل یا پھل اتنا ہونے کی توقع ہے۔ اسے ”خرص“ کہا جاتا تھا۔ (2) خرص کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ پھل یا فصل پکنے کے بعد مالک کھانے کھلانے میں آزاد ہوتا تھا۔ جو چاہے کھائے، دوسروں کو کھلائے۔ حکومت کٹائی کے موقع پر اندازے (خرص کے مطابق عشر وصول کر لیتی تھی۔ اس طریقے سے نہ مالک کو تنگی ہوتی تھی اور نہ حکومت کو اعتراض کا موقع ملتا تھا۔ (3) احناف خرص کے قائل نہیں کہ پتا نہیں اندازہ صحیح ہو یا نہ ہو۔ اس طرح کسی پر ظلم بھی ہو سکتا ہے، لہٰذا یہ سود والی علت کی بنا پر منع ہے، مگر وہ یہ بات نظر انداز کر گئے کہ اس میں فریقین کا فائدہ ہے۔ باقی رہا ظلم کا امکان تو اس کا حل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگلے الفاظ میں خود ہی تجویز فرما دیا ہے کہ اندازہ لگانے کے بعد تیسرے یا چوتھے حصے کی رعایت دی جائے، نیز خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیات طیبہ میں اور خلفائے راشدین اپنے اپنے ادوار مبارکہ میں اور عام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس پر عمل کرتے رہے ہیں۔ اگر یہ سود یا جوئے کے مشابہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قسم کا اقدام نہ فرماتے، اور نہ اس کی اجازت ہی مرحمت فرماتے۔ کیا مانعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ دین کے خیر خواہ یا ان سے زیادہ علم والے ہیں؟ دراصل شریعت لوگوں کی تنگی کا بھی لحاظ رکھتی ہے، جیسے بلی کے جوٹھے کا پلید نہ ہونا اس کی واضح دلیل ہے۔ (4) ”تیسرا حصہ چھوڑ دو۔“ کیونکہ ضروری نہیں اندازے کے مطابق ہی پیداوار ہو۔ جانور کھا جاتے ہیں، ناگہانی آفات سے فصل اور پھل کا نقصان ہو سکتا ہے، لوگ اور سائلین بھی کمی کا موجب بن سکتے ہیں، اس لیے مالک کو رعایت چاہیے۔ چونکہ حالات مختلف ہوتے ہیں، لہٰذا تیسرے یا چوتھے حصے یا ان کے مابین کمی کا اختیار دیا تاکہ کسی پر زیادتی نہ ہو۔ اگر زیادہ نقصان ہو جائے تو اس سے زیادہ بھی رعایت دینی پڑے گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سہل بن ابی حثمہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم درختوں پر پھلوں کا تخمینہ لگاؤ تو جو تخمینہ لگاؤ اسے لو، اور اس میں سے ایک تہائی چھوڑ دو۱؎ اور اگر تم نہ لے سکو یا تہائی نہ چھوڑ سکو (شعبہ کو شک ہو گیا ہے) تو تم چوتھائی چھوڑ دو۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی اس کی زکاۃ نہ لو تاکہ اسے دوستوں اور ہمسایوں پر خرچ کرنے میں کوئی تنگی محسوس نہ ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from ‘Abdur Rahman bin Mas’ud bin Niyar: “Sahl bin Abi Hathmah came to us when we were in the market and said: ‘The Messenger of Allah (ﷺ) said: When you have estimated, take two-thirds (of the portion you have estimated as Zakah) and leave one-third, and if you do not take (two-thirds) or leave one- third. (One of the reporters) Shu’bah doubted — leave one quarter.” (Hasan)