باب: اللہ کے فرمان:{ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ } کی تفسیر
)
Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: The Saying Of Allah, The Mighty And Sublime: "And Do Not Aim At That Which Is bad To Spend From")
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2492.
حضرت ابو امامہ بن سہل بن حنیف اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ﴾ ”تم (اللہ تعالیٰ کے راستے میں) خرچ کرتے وقت ردی چیز نہ دیا کرو۔“ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس کا مصداق جعرور اور لون حبیق کھجوریں ہیں۔ رسول اللہﷺ نے زکاۃ میں ردی اور ناقص مال وصول کرنے سے منع فرمایا ہے۔
تشریح:
جعرور اور لون حبیق کھجوروں کی ردی قسمیں ہیں۔ چھوٹی چھوٹی کھجوریں ہوتی تھیں جن کی کوئی وقعت نہ تھی، البتہ یاد ہے کہ اگر پیداوار ہی اس قسم کی ہے تو ظاہر ہے کہ زکاۃ میں بھی وہی دی جائیں گی۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر پیداوار میں اچھی قسم کی یا ملی جلی کھجوریں ہوں تو زکاۃ میں ردی کھجوریں نہ لی جائیں جیسی پیداوار ہو، اس کے مطابق ہی زکاۃ چاہیے تاکہ بیت المال کا نقصان ہو، نہ مالک کا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح) .
إسناده: حدثنا محمد بن يحيى بن فارس: ثنا سعيد بن سليمان: ثنا عَبّادٌ
عن سفيان بن حسين عن الزهري عن أبي أمامة بن سهل.
قال أبو داود: " وأسنده أيضا أبو الوليد عن سليمان بن كثير عن الزهري ".
قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات رجال الشيخين، فهو صحيح؛ لولا أن سفيان
ابن حسين قد ضُعِّفَ في روايته عن الزهري خاصة، لكنه لم يتفرد به، كما يشير
إلى ذلك قول المصنف المذكور: " وأسنده أيضا... ".
وهذا المعلَق قد وصله ابن أبي حاتم في "التفسير"، فقال: حدثنا أبي: حدثنا
أبو الوليد... به.
قلت: وسليمان بن كثير- وهو العبدي- حاله في الزهري كحال ابن حسين؛
قال الحافظ:
" لا بأس به في غير الزهري ".
ومما يدل على ضعفهما فيه: أنهما قد خولفا في إسناده ممن هو أوثق منهما،
فقال ابن أبي شيبة (3/226) : حدثنا أبو أسامة عن محمد بن أبي حفصة قال:
حدثني الزهري عن أبي أمامة بن سهل قال... فذكره؛ ولم يقل: عن أبيه..
جعله من (مسند أبي أمامة) نفسه.
وقد تابعه عبد الجليل بن حُمَيْد اليَحْصُبِي أن ابن شهاب حدثه... به:
أخرجه النسائي (1/345) .
قلت: وعبد الجليل هذا ثقة، ومثله محمد بن أبي حفصة؛ فإنه من رجال
الشيخين؛ لكن قال الحافظ:
" صدوق يخطئ ".
فاتفاقهما على خلاف رواية سفيان وسليمان: ممَّا قد يدل على وهم الأخيرين
في ذكر سهل في إسناد الحديث.
فإن قيل: فهل يضر ذلك في صحة الحديث؟
فالجواب: لا؛ لأن أبا أمامة بن سهل بن حنيف صحابي صغير؛ فإن لم يكن
قد تلقاه عن أبيه؛ فهو مرسل صحابي، ومراسيل الصحابة حجة.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2493
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2491
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2494
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت ابو امامہ بن سہل بن حنیف اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ﴾ ”تم (اللہ تعالیٰ کے راستے میں) خرچ کرتے وقت ردی چیز نہ دیا کرو۔“ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس کا مصداق جعرور اور لون حبیق کھجوریں ہیں۔ رسول اللہﷺ نے زکاۃ میں ردی اور ناقص مال وصول کرنے سے منع فرمایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
جعرور اور لون حبیق کھجوروں کی ردی قسمیں ہیں۔ چھوٹی چھوٹی کھجوریں ہوتی تھیں جن کی کوئی وقعت نہ تھی، البتہ یاد ہے کہ اگر پیداوار ہی اس قسم کی ہے تو ظاہر ہے کہ زکاۃ میں بھی وہی دی جائیں گی۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر پیداوار میں اچھی قسم کی یا ملی جلی کھجوریں ہوں تو زکاۃ میں ردی کھجوریں نہ لی جائیں جیسی پیداوار ہو، اس کے مطابق ہی زکاۃ چاہیے تاکہ بیت المال کا نقصان ہو، نہ مالک کا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ ابوامامہ بن سہیل بن حنیف ؓ نے اللہ عز و جل کے فرمان: «وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ» ”اللہ کی راہ میں برا مال خرچ کرنے کا قصد نہ کرو۔“ (البقرہ: ۲۶۷) کے متعلق مجھ سے بیان کیا کہ «خبيث» سے مراد «جعرور» اور «لون حبیق» ہیں، رسول اللہ ﷺ نے زکاۃ میں خراب مال لینے سے منع فرما دیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : «جعرور» اور «لون حبیق» دونوں کھجور کی گھٹیا قسموں کے نام ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Umamah bin Sahl bin Hunaif said, concerning the Verse in which Allah, the Mighty and Sublime, says: And do not aim at that which is bad to spend from it.” This refers to bad quality dates. The Messenger of Allah (ﷺ) forbade taking bad quality dates as Sadaqah. (Hasan)