باب: صدقۂ فطر کی فرضیت زکاۃ کا حکم اترنے سے پہلے تھی
)
Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Sadaqatul Fitr Was Enjoined Before The Command To Give Zakah Was Revealed)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2506.
حضرت قیس بن سعد بن عبادہ سے مروی ہے کہ ہم عاشوراء (۱۰ محرم الحرام) کا روزہ رکھتے تھے اور صدقۃ الفطر ادا کیا کرتے تھے۔ جب رمضان المبارک کے روزوں اور زکاۃ کی فرضیت نازل ہوئی تونہ ہمیں اس کا نیا حکم دیا گیا اور نہ اس سے روکا گیا۔ ویسے ہم یہ کام کرتے رہے۔
تشریح:
اس روایت سے بعض حضرات نے استدلال کیا ہے کہ صدقۃ الفطر فرض نہیں رہا، حالانکہ اس قول میں ایسی کوئی صراحت نہیں کیونکہ ایک نئی چیز کی فرضیت سے پرانی چیز کی فرضیت منسوخ نہیں ہو جاتی ہے۔ اور نہ اس کے لیے کسی نئے حکم ہی کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ دوسری صریح روایات میں اس کی فرضیت ثابت ہے۔ زکاۃ کی فرضیت تو ۲ ہجری کی ہے۔ بعد میں مسلمان ہونے والے حضرات نے اس کی فرضیت ذکر کی ہے، مثلاً: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ (دیکھیے، حدیث: ۲۵۱۰، ۲۵۱۷) لہٰذا صدقۃ الفطر زکاۃ کی فرضیت کے باوجود فرض ہے، البتہ احناف نے اسے واجب کہا ہے مگر عملاً واجب اور فرض میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ باقی رہا عاشوراء کا روزہ تو اس کے بارے میں صراحتاً مذکور ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رکھنے نہ رکھنے کا اختیار دے دیا تھا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2507
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2505
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2508
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت قیس بن سعد بن عبادہ سے مروی ہے کہ ہم عاشوراء (۱۰ محرم الحرام) کا روزہ رکھتے تھے اور صدقۃ الفطر ادا کیا کرتے تھے۔ جب رمضان المبارک کے روزوں اور زکاۃ کی فرضیت نازل ہوئی تونہ ہمیں اس کا نیا حکم دیا گیا اور نہ اس سے روکا گیا۔ ویسے ہم یہ کام کرتے رہے۔
حدیث حاشیہ:
اس روایت سے بعض حضرات نے استدلال کیا ہے کہ صدقۃ الفطر فرض نہیں رہا، حالانکہ اس قول میں ایسی کوئی صراحت نہیں کیونکہ ایک نئی چیز کی فرضیت سے پرانی چیز کی فرضیت منسوخ نہیں ہو جاتی ہے۔ اور نہ اس کے لیے کسی نئے حکم ہی کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ دوسری صریح روایات میں اس کی فرضیت ثابت ہے۔ زکاۃ کی فرضیت تو ۲ ہجری کی ہے۔ بعد میں مسلمان ہونے والے حضرات نے اس کی فرضیت ذکر کی ہے، مثلاً: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ (دیکھیے، حدیث: ۲۵۱۰، ۲۵۱۷) لہٰذا صدقۃ الفطر زکاۃ کی فرضیت کے باوجود فرض ہے، البتہ احناف نے اسے واجب کہا ہے مگر عملاً واجب اور فرض میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ باقی رہا عاشوراء کا روزہ تو اس کے بارے میں صراحتاً مذکور ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رکھنے نہ رکھنے کا اختیار دے دیا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
قیس بن سعد بن عبادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، اور عید الفطر کا صدقہ ادا کرتے تھے، پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوئے، اور زکاۃ کی (فرضیت) اتری، تو نہ ہمیں ان کا حکم دیا گیا نہ ہی ان کے کرنے سے روکا گیا، اور ہم (جیسے کرتے تھے) اسے کرتے رہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Qais bin Sa'd bin ‘Ubadahh said: “We used to fast on ‘Ashura’ and give Zakatul-Fitr, and when the command to fast in Ramadan was revealed, and the command to give Zakah was revealed, we were neither commanded to give it, nor told not to do so, and we used to do it.” (Sahih)