Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Raisins As Zakatul-Fitr)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2513.
حضرت ابوسعید ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ ہم میں تشریف فرما تھے تو ہم صدقۃ الفطر طعام، کھجور، جو یا پنیر سے ایک صاع نکالا کرتے تھے۔ ہم اسی طرح نکالتے رہے حتیٰ کہ حضرت معاویہ ؓ شام سے (مدینہ منورہ) آئے تو جو باتیں انھوں نے لوگوں کو سکھائیں، ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ انھوں نے فرمایا: میں سمجھتا ہوں شامی گندم کے دو مد قیمت میں کھجور وغیرہ کے صاع کے برابر ہیں۔ تو لوگوں نے اس پر عمل شروع کر دیا۔
تشریح:
صاع چار مد کا ہوتا ہے گویا گندم کا نصف صاع قیمت کے لحاظ سے کھجور وغیرہ کے صاع کے برابر تھا۔ صاع دراصل برتن کی صورت میں ایک پیمانہ ہے، وزن نہیں۔ ظاہر ہے برتن کے اندر ہر جنس برابر وزن کی نہیں ہوتی۔ گندم کا الگ وزن ہوگا، کھجوروں کا الگ، جو کا الگ اور کشمش کا الگ، لہٰذا اصل تو یہی ہے کہ صاع بھر کر غلہ دیا جائے جو بھی ہو، مگر وہ صاع ہر جگہ مہیا نہیں۔ بعض علماء نے حجاز کا پرانا صاع نبوی مہیا ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ اور یہ بھی کہا ہے کہ اس میں تقریباً ڈھائی کلو گندم آتی ہے۔ (مد کا پیمانہ تو میں نے بھی سعیدی خاندان کے ہاں دیکھا ہے) عام طور پر صاع کا جو وزن کتابوں میں مرقوم ہے، وہ بھی کوئی ڈھائی کلو بنتا ہے کیونکہ رطل نوے مثقال کا ہوتا ہے اور ہر مثقال ساڑھے چار ماشے کا، لہٰذا رطل: 405=41/2x90 ماشے کا ہوا۔ اور ایک صاع 5 رطل کا ہوتا ہے، لہٰذا صاع 2150=51/3x405 ماشے کا ہوا جو 180 تولے بنتے ہیں اور ایک تولہ 11.664 گرام کا ہوتا ہے، لہٰذا 2099.52=11.664x180 گرام ہوا، لہٰذا صدقہ فطر میں احتیاطاً ڈھائی کلو غلہ دیا جائے۔ (دیکھئے، حدیث: ۲۴۴۷)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وقد أخرجه في "صحيحه "
بإسناد المصنف ومتنه، وأخرجه البخاري دون قصة معاوية) .
إسناده: حدثنا عبد الله بن مسلمة: ثنا داود- يعني: ابن قيس- عن عِيَاضِ
ابن عبد الله عن أبي سعيد الخدري.
(*) في أصل الشيخ ما يدل على أن التخريج لم ينته بعد. والله أعلم. (الناشر) .
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير داود بن
قيس، فهو من رجال مسلم؛ وقد أخرجه كما يأتي.
والحديث أخرجه مسلم... بإسناد المصنف ومتنه.
وأخرجه آخرون من طرق أخرى عن داود... به.
وله طرق أخرى عن عياض... به نحوه: أخرجه البخاري من بعضها
(3/290 و 292 و 293) ، دون قصة قدوم معاوية. وفي بعض الطرق عند المصنف وغيره زيادة:
أو صاعاً من دقيق.
ولكنها غير محفوظة؛ ولذلك أوردتها في الكتاب الأخر (284- 286) .
والطرق الأخرى عن عياض قد سقتها مخرجة في "الإرواء" (847) ؛ فأغنى عن
ذكرها هنا.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2514
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2512
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2515
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت ابوسعید ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ ہم میں تشریف فرما تھے تو ہم صدقۃ الفطر طعام، کھجور، جو یا پنیر سے ایک صاع نکالا کرتے تھے۔ ہم اسی طرح نکالتے رہے حتیٰ کہ حضرت معاویہ ؓ شام سے (مدینہ منورہ) آئے تو جو باتیں انھوں نے لوگوں کو سکھائیں، ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ انھوں نے فرمایا: میں سمجھتا ہوں شامی گندم کے دو مد قیمت میں کھجور وغیرہ کے صاع کے برابر ہیں۔ تو لوگوں نے اس پر عمل شروع کر دیا۔
حدیث حاشیہ:
صاع چار مد کا ہوتا ہے گویا گندم کا نصف صاع قیمت کے لحاظ سے کھجور وغیرہ کے صاع کے برابر تھا۔ صاع دراصل برتن کی صورت میں ایک پیمانہ ہے، وزن نہیں۔ ظاہر ہے برتن کے اندر ہر جنس برابر وزن کی نہیں ہوتی۔ گندم کا الگ وزن ہوگا، کھجوروں کا الگ، جو کا الگ اور کشمش کا الگ، لہٰذا اصل تو یہی ہے کہ صاع بھر کر غلہ دیا جائے جو بھی ہو، مگر وہ صاع ہر جگہ مہیا نہیں۔ بعض علماء نے حجاز کا پرانا صاع نبوی مہیا ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ اور یہ بھی کہا ہے کہ اس میں تقریباً ڈھائی کلو گندم آتی ہے۔ (مد کا پیمانہ تو میں نے بھی سعیدی خاندان کے ہاں دیکھا ہے) عام طور پر صاع کا جو وزن کتابوں میں مرقوم ہے، وہ بھی کوئی ڈھائی کلو بنتا ہے کیونکہ رطل نوے مثقال کا ہوتا ہے اور ہر مثقال ساڑھے چار ماشے کا، لہٰذا رطل: 405=41/2x90 ماشے کا ہوا۔ اور ایک صاع 5 رطل کا ہوتا ہے، لہٰذا صاع 2150=51/3x405 ماشے کا ہوا جو 180 تولے بنتے ہیں اور ایک تولہ 11.664 گرام کا ہوتا ہے، لہٰذا 2099.52=11.664x180 گرام ہوا، لہٰذا صدقہ فطر میں احتیاطاً ڈھائی کلو غلہ دیا جائے۔ (دیکھئے، حدیث: ۲۴۴۷)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب ہم میں تھے تو ہم صدقہ فطر گیہوں سے، کھجور سے، یا جو سے، یا پنیر سے ایک صاع نکالتے تھے، اور ہم برابر اسی طرح نکالتے رہے۔ یہاں تک کہ معاویہ ؓ شام سے آئے، اور انہوں نے جو باتیں لوگوں کو بتائیں ان میں ایک بات یہ بھی تھی کہ شامی گیہوں کے دو مد (مدینہ کے) ایک صاع کے برابر ہیں، تو لوگوں نے اسی کو اختیار کر لیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Saeed said: “We used to pay Sadaqatul Fitr when the Messenger of Allah (ﷺ) was among us; a Sa’ of food, or a Sà’ of dates, or a Sa’ of barley, or a Sa’ of cottage cheese. We continued to do so until Muawiyah came from Ash-Sham and one of the things that he taught the people was when he said: ‘I think that two Mudds of wheat from Ash-Sham are equivalent to a Sa’ of this.’ So the people took to that. (Sahih)