تشریح:
صاع چار مد کا ہوتا ہے گویا گندم کا نصف صاع قیمت کے لحاظ سے کھجور وغیرہ کے صاع کے برابر تھا۔ صاع دراصل برتن کی صورت میں ایک پیمانہ ہے، وزن نہیں۔ ظاہر ہے برتن کے اندر ہر جنس برابر وزن کی نہیں ہوتی۔ گندم کا الگ وزن ہوگا، کھجوروں کا الگ، جو کا الگ اور کشمش کا الگ، لہٰذا اصل تو یہی ہے کہ صاع بھر کر غلہ دیا جائے جو بھی ہو، مگر وہ صاع ہر جگہ مہیا نہیں۔ بعض علماء نے حجاز کا پرانا صاع نبوی مہیا ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ اور یہ بھی کہا ہے کہ اس میں تقریباً ڈھائی کلو گندم آتی ہے۔ (مد کا پیمانہ تو میں نے بھی سعیدی خاندان کے ہاں دیکھا ہے) عام طور پر صاع کا جو وزن کتابوں میں مرقوم ہے، وہ بھی کوئی ڈھائی کلو بنتا ہے کیونکہ رطل نوے مثقال کا ہوتا ہے اور ہر مثقال ساڑھے چار ماشے کا، لہٰذا رطل: 405=41/2x90 ماشے کا ہوا۔ اور ایک صاع 5 رطل کا ہوتا ہے، لہٰذا صاع 2150=51/3x405 ماشے کا ہوا جو 180 تولے بنتے ہیں اور ایک تولہ 11.664 گرام کا ہوتا ہے، لہٰذا 2099.52=11.664x180 گرام ہوا، لہٰذا صدقہ فطر میں احتیاطاً ڈھائی کلو غلہ دیا جائے۔ (دیکھئے، حدیث: ۲۴۴۷)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وقد أخرجه في "صحيحه "
بإسناد المصنف ومتنه، وأخرجه البخاري دون قصة معاوية) .
إسناده: حدثنا عبد الله بن مسلمة: ثنا داود- يعني: ابن قيس- عن عِيَاضِ
ابن عبد الله عن أبي سعيد الخدري.
(*) في أصل الشيخ ما يدل على أن التخريج لم ينته بعد. والله أعلم. (الناشر) .
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير داود بن
قيس، فهو من رجال مسلم؛ وقد أخرجه كما يأتي.
والحديث أخرجه مسلم... بإسناد المصنف ومتنه.
وأخرجه آخرون من طرق أخرى عن داود... به.
وله طرق أخرى عن عياض... به نحوه: أخرجه البخاري من بعضها
(3/290 و 292 و 293) ، دون قصة قدوم معاوية. وفي بعض الطرق عند المصنف وغيره زيادة:
أو صاعاً من دقيق.
ولكنها غير محفوظة؛ ولذلك أوردتها في الكتاب الأخر (284- 286) .
والطرق الأخرى عن عياض قد سقتها مخرجة في "الإرواء" (847) ؛ فأغنى عن
ذكرها هنا.