مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2517.
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہم (صدقۃ الفطر) جو، کھجور، کشمش یا پنیر سے ایک صاع نکالا کرتے تھے۔ اور (بعد میں بھی) ہم اسی طرح نکالتے رہے حتیٰ کہ حضرت معاویہ ؓ کا دور آگیا تو انھوں نے فرمایا: ”میں سمجھتا ہوں کہ شام کی گندگی کے دو مد (نصف صاع) جو کے ایک صاع کے برابر ہیں۔“
تشریح:
یہ رائے صرف سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ہی کی نہ تھی بلکہ کچھ دیگر صحابہ کرامؓ بھی اس رائے کے حامل تھے۔ دیکھئے حدیث: ۲۵۱۴ کے فوائد ومسائل۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2518
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2516
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2519
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہم (صدقۃ الفطر) جو، کھجور، کشمش یا پنیر سے ایک صاع نکالا کرتے تھے۔ اور (بعد میں بھی) ہم اسی طرح نکالتے رہے حتیٰ کہ حضرت معاویہ ؓ کا دور آگیا تو انھوں نے فرمایا: ”میں سمجھتا ہوں کہ شام کی گندگی کے دو مد (نصف صاع) جو کے ایک صاع کے برابر ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
یہ رائے صرف سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ہی کی نہ تھی بلکہ کچھ دیگر صحابہ کرامؓ بھی اس رائے کے حامل تھے۔ دیکھئے حدیث: ۲۵۱۴ کے فوائد ومسائل۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں صدقہ فطر ایک صاع جَو یا کھجور یا انگور یا پنیر نکالتے تھے۔ اور ہم برابر ایسا ہی کرتے چلے آ رہے تھے یہاں تک کہ معاویہ ؓ کا زمانہ آیا۔ تو انہوں نے کہا: میں سمجھتا ہوں کہ شامی گیہوں کے دو مد (یعنی نصف صاع) جو کے ایک صاع کے برابر ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Sa' eed Al-Khudri said: "At the time of the Messenger of Allah, we used to give a Sa' of barley, or dates, or raisins, or cottage cheese, and we continued to do so until the time of Mu'awiyah, when he said: 'I think that two Mudds of wheat from Ash-Sham are equivalent to a Sa' of barley.