Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: The Poor's Might)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2530.
حضرت ابو مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب ہمیں رسول اللہﷺ نے صدقہ کرنے کا حکم دیا تو حضرت ابو عقیل ؓ نے نصف صاع صدقہ کیا۔ ایک اور صحابی اس سے بہت زیادہ مال لے کر آئے۔ منافقین کہنے لگے: اللہ تعالیٰ اس شخص (حضرت ابو عقیل) کے اس قلیل صدقے سے بے نیاز ہے اور اس دوسرے شخص نے صرف ریاکاری کے لیے صدقہ کیا ہے۔ تو یہ آیت اتری: ﴿الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ… الآیۃ﴾ ”منافق لوگ خوشی سے کثیر صدقہ کرنے والے ایمان والوں کو بھی عیب لگاتے ہیں اور ان غریب مسلمانوں کو بھی جن کے پاس مشقت سے کمایا ہوا تھوڑا سا مال ہے۔“
تشریح:
”ایک اور صحابی۔“ یہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ تھے۔ مال دار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں شمار ہوتے تھے۔ اس دن یہ چار ہزار اور ایک روایت کے مطابق آٹھ ہزار درہم لے کر آئے تھے۔ دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۲۲/ ۳۵۶) منافقوں نے ان پر ریا کاری کا الزام لگا دیا اور حضرت ابو عقیل رضی اللہ عنہ کے نصف صاع صدقہ کرنے کو ویسے مذاق بنا لیا اور تحقیر کی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2531
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2529
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2531
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت ابو مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب ہمیں رسول اللہﷺ نے صدقہ کرنے کا حکم دیا تو حضرت ابو عقیل ؓ نے نصف صاع صدقہ کیا۔ ایک اور صحابی اس سے بہت زیادہ مال لے کر آئے۔ منافقین کہنے لگے: اللہ تعالیٰ اس شخص (حضرت ابو عقیل) کے اس قلیل صدقے سے بے نیاز ہے اور اس دوسرے شخص نے صرف ریاکاری کے لیے صدقہ کیا ہے۔ تو یہ آیت اتری: ﴿الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ… الآیۃ﴾ ”منافق لوگ خوشی سے کثیر صدقہ کرنے والے ایمان والوں کو بھی عیب لگاتے ہیں اور ان غریب مسلمانوں کو بھی جن کے پاس مشقت سے کمایا ہوا تھوڑا سا مال ہے۔“
حدیث حاشیہ:
”ایک اور صحابی۔“ یہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ تھے۔ مال دار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں شمار ہوتے تھے۔ اس دن یہ چار ہزار اور ایک روایت کے مطابق آٹھ ہزار درہم لے کر آئے تھے۔ دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۲۲/ ۳۵۶) منافقوں نے ان پر ریا کاری کا الزام لگا دیا اور حضرت ابو عقیل رضی اللہ عنہ کے نصف صاع صدقہ کرنے کو ویسے مذاق بنا لیا اور تحقیر کی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابومسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے ہمیں صدقہ کا حکم دیا تو ابوعقیل ؓ نے آدھا صاع صدقہ دیا، اور ایک اور شخص اس سے زیادہ لے کر آیا، تو منافقین اس (پہلے شخص) کے صدقہ کے بارے میں کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ ایسے صدقے سے بے نیاز ہے، اور اس دوسرے نے محض دکھاوے کے لیے دیا ہے، تو (اس موقع پر) آیت کریمہ: «الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ» ”جو لوگ دل کھول کر خیرات کرنے والے مومنین پر اور ان لوگوں پر جو صرف اپنی محنت و مزدوری سے حاصل کر کے صدقہ دیتے ہیں طعن زنی کرتے ہیں۔“ (التوبہ: ۷۹) نازل ہوئی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Mas’ud said: “When the Messenger of Allah (ﷺ) commanded us to give in charity, Abu ‘Aqil gave half a Sa’, and another man brought much more than that. The hypocrites said: ‘Allah has no need of the charity of the former, and the latter only did it to show off.’ Then the following was revealed: ‘Those who defame such of the believers who give charity voluntarily, and such who could not find to give charity except what is available to them.” (Sahih)