Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: The Upper Hand)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2531.
حضرت حکیم بن حزام ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے (مال) مانگا، آپ نے مجھے دیا۔ میں نے پھر مانگا، آپ نے پھر دیا۔ میں نے پھر مانگا، آپ نے پھر دیا۔ ساتھ ہی فرمایا: ”بلا شبہ یہ مال سبز وشیریں ہے۔ جو شخص اسے دل کی پاکیزگی کے ساتھ لے گا، اس کے لیے اس میں برکت ہوگی اور جو دل کے طمع وحرص کے ساتھ لے گا، اس کے لیے اس میں برکت نہ ہوگی اور وہ اس شخص کی طرح ہوگا جو کھاتا ہے مگر سیر نہیں ہوتا اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔“
تشریح:
(1) ”سبز وشیریں“ سبز چارہ جانوروں کو بہت مرغوب ہوتا ہے اور میٹھی چیز عموماً انسانوں کو بہت پسند ہوتی ہے، اس لیے مال کو دو چیزوں سے تشبیہ دی گئی۔ (2) ”دل کی پاکیزگی۔“ یعنی دل میں طمع اور لالچ نہ ہو اور نہ اس نے مانگا ہی ہو۔ یا دینے والے نے اسے خوشی سے دیا ہو، نہ کہ مجبوراً یا بغیر مانگے دیا ہو۔ (3) ”دل کے طمع وحرص۔“ یعنی لینے والے کی یہ حالت ہو یا دینے والے نے طمع اور لالچ سے دیا ہو کہ مجھے زیادہ واپس ملے گا۔ (4) ”سیر نہیں ہوتا۔“ کیونکہ دل غنی نہیں۔ دل غنی ہو تو تھوڑا بھی کافی محسوس ہوتا ہے ورنہ ڈھیر بھی مطمئن نہیں کر سکتے۔ (5) ”اوپر والا ہاتھ۔“ یعنی دینے والا کیونکہ وہ بلند رہتا ہے۔ کسی کے سامنے ذلیل نہیں ہوتا۔ (6) ”نیچے والے ہاتھ“ یعنی مانگنے والا۔ وہ حقیقتاً بھی دینے والے کے ہاتھ کے نیچے ہوتا ہے اور رتبے کے لحاظ سے بھی کم ہوتا ہے۔ (7) حدیث کا مقصود یہ ہے کہ انتہائی حاجت کے بغیر نہیں مانگنا چاہیے اور اگر خود بخود ملے تو پھر بھی دل میں حرص وطمع نہیں ہونا چاہیے اور جب ضرورت پوری ہو جائے تو مانگنے سے رک جانا چاہیے بلکہ کسی کا دیا بھی قبول نہ کرے۔ اس میں عزت ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2532
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2530
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2532
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت حکیم بن حزام ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے (مال) مانگا، آپ نے مجھے دیا۔ میں نے پھر مانگا، آپ نے پھر دیا۔ میں نے پھر مانگا، آپ نے پھر دیا۔ ساتھ ہی فرمایا: ”بلا شبہ یہ مال سبز وشیریں ہے۔ جو شخص اسے دل کی پاکیزگی کے ساتھ لے گا، اس کے لیے اس میں برکت ہوگی اور جو دل کے طمع وحرص کے ساتھ لے گا، اس کے لیے اس میں برکت نہ ہوگی اور وہ اس شخص کی طرح ہوگا جو کھاتا ہے مگر سیر نہیں ہوتا اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”سبز وشیریں“ سبز چارہ جانوروں کو بہت مرغوب ہوتا ہے اور میٹھی چیز عموماً انسانوں کو بہت پسند ہوتی ہے، اس لیے مال کو دو چیزوں سے تشبیہ دی گئی۔ (2) ”دل کی پاکیزگی۔“ یعنی دل میں طمع اور لالچ نہ ہو اور نہ اس نے مانگا ہی ہو۔ یا دینے والے نے اسے خوشی سے دیا ہو، نہ کہ مجبوراً یا بغیر مانگے دیا ہو۔ (3) ”دل کے طمع وحرص۔“ یعنی لینے والے کی یہ حالت ہو یا دینے والے نے طمع اور لالچ سے دیا ہو کہ مجھے زیادہ واپس ملے گا۔ (4) ”سیر نہیں ہوتا۔“ کیونکہ دل غنی نہیں۔ دل غنی ہو تو تھوڑا بھی کافی محسوس ہوتا ہے ورنہ ڈھیر بھی مطمئن نہیں کر سکتے۔ (5) ”اوپر والا ہاتھ۔“ یعنی دینے والا کیونکہ وہ بلند رہتا ہے۔ کسی کے سامنے ذلیل نہیں ہوتا۔ (6) ”نیچے والے ہاتھ“ یعنی مانگنے والا۔ وہ حقیقتاً بھی دینے والے کے ہاتھ کے نیچے ہوتا ہے اور رتبے کے لحاظ سے بھی کم ہوتا ہے۔ (7) حدیث کا مقصود یہ ہے کہ انتہائی حاجت کے بغیر نہیں مانگنا چاہیے اور اگر خود بخود ملے تو پھر بھی دل میں حرص وطمع نہیں ہونا چاہیے اور جب ضرورت پوری ہو جائے تو مانگنے سے رک جانا چاہیے بلکہ کسی کا دیا بھی قبول نہ کرے۔ اس میں عزت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے مانگا تو آپ نے مجھے دیا، پھر مانگا پھر آپ نے دیا، پھر مانگا، تو فرمایا: ”یہ مال سرسبز و شیریں چیز ہے، جو شخص اسے فیاضی نفس کے ساتھ لے گا تو اس میں برکت دی جائے گی، اور جو شخص اسے حرص و طمع کے ساتھ لے گا تو اسے اس میں برکت نہ ملے گی، اور اس شخص کی طرح ہو گا جو کھاتا ہے مگر آسودہ نہیں ہوتا (یعنی مانگنے والے کا پیٹ نہیں بھرتا)۔ اوپر والا ہاتھ، نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Saeed and ‘Urwah narrated that they heard I bin Hizam say: “I asked the Messenger of Allah (ﷺ) and he gave me, then I asked him and he gave me, then I asked him and he gave me. Then he said: ‘This wealth is attractive and sweet. Whoever takes it without insisting, it will be blessed for him, and whoever takes it with avarice, it will not be blessed for him. He is like one who eats and is not satisfied. And the upper hand is better than the lower hand.” (Sahih)