Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: The Charity Of A Miser)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2547.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے منقول ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”صدقہ کرنے والے کی اور کنجوس شخص کی مثال ان دو آدمیوں کی طرح ہے جن کے جسم پر لوہے کے کرتے یا زرہیں ہوں، جنھوں نے ان کے سینوں کو ڈھانپ رکھا ہو۔ جب سخی خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی زرہ کھل جاتی ہے اور وسیع ہو جاتی ہے حتیٰ کہ اس کی انگلیوں کے پوروں کو ڈھانپ لیتی ہے اور اس کے نشانات قدم کو مٹا دیتی ہے۔ اور جب بخیل خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی زرہ سکڑ جاتی ہے اور ہر کڑی اپنی جگہ سمٹ جاتی ہے حتیٰ کہ اس کے حلق یا گلے کو پکڑ لیتی ہے۔“ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا (جیسے) آپ اسے کھول رہے ہیں اور وہ کھلتی نہیں۔ (حضرت ابوہریرہ کے شاگرد) طاؤس نے کہا: حضرت ابوہریرہ ؓ بھی اپنے ہاتھ سے اسے کھولنے کا اشارہ کرتے تھے لیکن وہ کھلتی نہ تھی۔
تشریح:
(۱) ’’لوہے کے کُرتے یا زرہیں۔‘‘ زرہ چمڑے کی بھی ہوتی ہے، اس لیے لوہے کی صراحت فرمائی کہ تاکہ آئندہ مثال میں زور پیدا ہو۔ (۲) ’’سینوں کو۔‘‘ ویسے بھی زرہ سینے کے لیے ہوتی ہے۔ یہاں خصوصاً سینے کا ذکر اس لیے ہے کہ انسان کا دل، جس سے سخاوت اور کنجوسی کا تعلق ہے، سینے میں ہوتا ہے۔ اس مثال میں زرہ سے مراد نفس کا شکنجہ ہے جو وہ روح پر چڑھائے رکھتا ہے جو روحانی کمالات کے ظہور سے مانع ہوتا ہے۔ (۳) ’’کھل جاتی ہے۔‘‘ یعنی سخی کا دل اس شکنجے کو کھول دیتا ہے حتیٰ کہ سخاوت کا اثر پورے جسم پر نمایاں ہوتا ہے اور اس کے ہاتھ بھی کھل کر سخاوت کرتے ہیں۔ نشانات قدم کو مٹانے سے مراد اس کی غلطیوں کو ختم کرنا ہے۔ یا مطلب یہ ہے کہ جس طرح یہ زرہ اس کے سارے جسم کو ڈھانپ لیتی ہے، اسی طرح قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کے عیوب کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ (۴) ’’سکڑ جاتی ہے۔‘‘ یعنی اس کا دل تنگ ہو جاتا ہے اور وہ صدقہ کرنے کی ہمت نہیں پاتا حتیٰ کہ اس کے لیے صدقہ کرنا اپنا گلا گھونٹنے والی بات بن جاتی ہے۔ جس طرح زرہ اس کے گلے تک سکڑ گئی، اسی طرح اس کا دل تنگ ہو جااتا ہے اور اسے صدقے کی توفیق نہیں ہو پاتی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2548
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2546
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2548
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے منقول ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”صدقہ کرنے والے کی اور کنجوس شخص کی مثال ان دو آدمیوں کی طرح ہے جن کے جسم پر لوہے کے کرتے یا زرہیں ہوں، جنھوں نے ان کے سینوں کو ڈھانپ رکھا ہو۔ جب سخی خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی زرہ کھل جاتی ہے اور وسیع ہو جاتی ہے حتیٰ کہ اس کی انگلیوں کے پوروں کو ڈھانپ لیتی ہے اور اس کے نشانات قدم کو مٹا دیتی ہے۔ اور جب بخیل خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی زرہ سکڑ جاتی ہے اور ہر کڑی اپنی جگہ سمٹ جاتی ہے حتیٰ کہ اس کے حلق یا گلے کو پکڑ لیتی ہے۔“ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا (جیسے) آپ اسے کھول رہے ہیں اور وہ کھلتی نہیں۔ (حضرت ابوہریرہ کے شاگرد) طاؤس نے کہا: حضرت ابوہریرہ ؓ بھی اپنے ہاتھ سے اسے کھولنے کا اشارہ کرتے تھے لیکن وہ کھلتی نہ تھی۔
حدیث حاشیہ:
(۱) ’’لوہے کے کُرتے یا زرہیں۔‘‘ زرہ چمڑے کی بھی ہوتی ہے، اس لیے لوہے کی صراحت فرمائی کہ تاکہ آئندہ مثال میں زور پیدا ہو۔ (۲) ’’سینوں کو۔‘‘ ویسے بھی زرہ سینے کے لیے ہوتی ہے۔ یہاں خصوصاً سینے کا ذکر اس لیے ہے کہ انسان کا دل، جس سے سخاوت اور کنجوسی کا تعلق ہے، سینے میں ہوتا ہے۔ اس مثال میں زرہ سے مراد نفس کا شکنجہ ہے جو وہ روح پر چڑھائے رکھتا ہے جو روحانی کمالات کے ظہور سے مانع ہوتا ہے۔ (۳) ’’کھل جاتی ہے۔‘‘ یعنی سخی کا دل اس شکنجے کو کھول دیتا ہے حتیٰ کہ سخاوت کا اثر پورے جسم پر نمایاں ہوتا ہے اور اس کے ہاتھ بھی کھل کر سخاوت کرتے ہیں۔ نشانات قدم کو مٹانے سے مراد اس کی غلطیوں کو ختم کرنا ہے۔ یا مطلب یہ ہے کہ جس طرح یہ زرہ اس کے سارے جسم کو ڈھانپ لیتی ہے، اسی طرح قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کے عیوب کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ (۴) ’’سکڑ جاتی ہے۔‘‘ یعنی اس کا دل تنگ ہو جاتا ہے اور وہ صدقہ کرنے کی ہمت نہیں پاتا حتیٰ کہ اس کے لیے صدقہ کرنا اپنا گلا گھونٹنے والی بات بن جاتی ہے۔ جس طرح زرہ اس کے گلے تک سکڑ گئی، اسی طرح اس کا دل تنگ ہو جااتا ہے اور اسے صدقے کی توفیق نہیں ہو پاتی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”صدقہ کرنے والے فیاض اور بخیل کی مثال ان دو آدمیوں کی سی ہے جن پر لوہے کے دو کرتے یا دو ڈھال ان دونوں کی چھاتیوں سے لے کر ان کی ہنسلی کی ہڈیوں تک ہوں، جب فیاض خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی زرہ اس کے بدن پر کشادہ ہو جاتی ہے، پھیل کر اس کی انگلیوں کے پوروں کو ڈھانپ لیتی ہے، اور اس کے نشان قدم کو مٹا دیتی ہے، اور جب بخیل خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ سکڑ جاتی ہے اور اس کی کڑیاں اپنی جگہوں پر چمٹ جاتی ہیں یہاں تک کہ وہ اس کی ہنسلی یا اس کی گردن پکڑ لیتی ہے۔“ ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ اسے کشادہ کر رہے تھے، اور وہ کشادہ نہیں ہو رہی تھی۔ طاؤس کہتے ہیں: میں نے ابوہریرہ ؓ کو کہتے سنا کہ آپ اپنے ہاتھ سے کشادہ کرنے کے لیے اشارہ کر رہے تھے، اور وہ کشادہ نہیں ہو رہی تھی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Hurairah (RA) said: “The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘The parable of the one who spends and gives in charity, and the one who is miserly, is that of two men wearing coats of mail, with their hands pressed closely to their breasts and their collarbones. When the one who spends wants to give charity, the (coat of mail) expands so much that it covers his fingertips and obliterates his traces. But when the miser wants to give, the (coat of mail) contracts and every ring grips the place where it is, and his hands are tied up to his collarbone.” Abu Hurairah (RA) says: ‘I swear that he saw the Messenger trying to expand it but it did not.” Tawus said: “I heard Abu Hurairah (RA) illustrating with his hand trying to expand it but it did not.” (Sahih)