Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: The Charity Of A Miser)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2548.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”کنجوس کی اور صدقہ کرنے والے کی مثال ان دو آدمیوں کی طرح ہے جن پر لوہے کی زرہیں ہیں اور ان کے ہاتھ ان کے سینے کے اوپر بندھے ہوئے ہیں۔ صدقہ کرنے والا شخص جب صدقہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی زرہ کھل جاتی ہے۔ حتیٰ کہ اس کے نشانات قدم تک کو مٹا ڈالتی ہے۔ اور جب بخیل آدمی صدقے کا ارادہ کرتا ہے تو زرہ کی ہر کڑی دوسری کڑی سے جڑ جاتی (اس میں پیوست ہو جاتی) ہے اور زرہ سکڑ جاتی ہے اور اس کے ہاتھ سینے سے بندھے رہتے ہیں۔“ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا: ”وہ زرہ کو کھولنے کی پوری کوشش کرتا ہے لیکن وہ کھلتی نہیں۔“
تشریح:
سخی آدمی صدقہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا دل فراخ ہو جاتا ہے، ہاتھ کھل جاتے ہیں اور تمام رکاوٹیں دور ہو جاتی ہیں۔ اور کنجوس شخص صدقے کا ارادہ کرے بھی تو اس کا دل مزید تنگ ہو جاتا ہے، گویا کہ ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ وہ زنجیروں میں جکڑے شخص کی طرح لا چار ہو جاتا ہے اور صدقہ نہیں کر پاتا۔ أَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْہ
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2549
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2547
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2549
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”کنجوس کی اور صدقہ کرنے والے کی مثال ان دو آدمیوں کی طرح ہے جن پر لوہے کی زرہیں ہیں اور ان کے ہاتھ ان کے سینے کے اوپر بندھے ہوئے ہیں۔ صدقہ کرنے والا شخص جب صدقہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی زرہ کھل جاتی ہے۔ حتیٰ کہ اس کے نشانات قدم تک کو مٹا ڈالتی ہے۔ اور جب بخیل آدمی صدقے کا ارادہ کرتا ہے تو زرہ کی ہر کڑی دوسری کڑی سے جڑ جاتی (اس میں پیوست ہو جاتی) ہے اور زرہ سکڑ جاتی ہے اور اس کے ہاتھ سینے سے بندھے رہتے ہیں۔“ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا: ”وہ زرہ کو کھولنے کی پوری کوشش کرتا ہے لیکن وہ کھلتی نہیں۔“
حدیث حاشیہ:
سخی آدمی صدقہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا دل فراخ ہو جاتا ہے، ہاتھ کھل جاتے ہیں اور تمام رکاوٹیں دور ہو جاتی ہیں۔ اور کنجوس شخص صدقے کا ارادہ کرے بھی تو اس کا دل مزید تنگ ہو جاتا ہے، گویا کہ ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ وہ زنجیروں میں جکڑے شخص کی طرح لا چار ہو جاتا ہے اور صدقہ نہیں کر پاتا۔ أَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْہ
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”بخیل اور صدقہ دینے والے (سخی) کی مثال ان دو شخصوں کی ہے جن پر لوہے کی زرہیں ہوں، اور ان کے ہاتھ ان کی ہنسلیوں کے ساتھ چمٹا دیئے گئے ہوں، تو جب جب صدقہ کرنے والا صدقہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی زرہ اس کے لیے وسیع و کشادہ ہو جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اتنی بڑی ہو جاتی ہے کہ چلتے وقت اس کے پیر کے نشانات کو مٹا دیتی ہے، اور جب بخیل صدقہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو ہر کڑی دوسرے کے ساتھ پیوست ہو جاتی اور سکڑ جاتی ہے، اور اس کے ہاتھ اس کی ہنسلی سے مل جاتے ہیں“ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: ”وہ (بخیل) کوشش کرتا ہے کہ اسے کشادہ کرے لیکن وہ کشادہ نہیں ہوتی۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Hurairah (RA) that the Prophet (ﷺ) said: “The parable of the miser and the one who gives in charity is that of two men wearing coats of mail with their hands tied to their collarbones. Every time the one who gives thinks of giving in charity, the (coat of mail) expands until it obliterates his traces, and every time the miser thinks of giving charity, every circle (of the coat of mail) contracts and sticks to him, and his hand is tied up to his collarbone.” I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: “He tries to expand it, but he cannot.” (Sahih)