Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Urging Charity)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2555.
حضرت حارثہ ؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا: ”صدقہ کرو اس لیے کہ ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ آدمی صدقہ لے کر چلے گا۔ (کہ کسی کو دے) مگر جسے وہ صدقہ دیا جائے گا، وہ کہے گا: اگر تو کل لے آتا تو میں قبول کر لیتا، آج نہیں۔“
تشریح:
(1) ”ایسا زمانہ“ واقعتا رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد ایسا زمانہ آیا۔ قرب قیامت بھی ایسی صورت حال پیدا ہوجائے گی کہ دولت عام ہو جائے گی۔ صدقہ تو ایک طرف رہا، کوئی دولت (سونا وغیرہ) نہ اٹھائے گا۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، الزكاة، حدیث: ۱۰۱۳) (2) ”کل“ ضروری نہیں حقیقتاً گزشتہ کل ہی مراد ہو، بلکہ مراد اس سے پہلے کا زمانہ بھی ہو سکتا ہے، چاہے وہ سال دو سال یا اس سے کم و بیش ہی ہو۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2556
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2554
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2556
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت حارثہ ؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا: ”صدقہ کرو اس لیے کہ ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ آدمی صدقہ لے کر چلے گا۔ (کہ کسی کو دے) مگر جسے وہ صدقہ دیا جائے گا، وہ کہے گا: اگر تو کل لے آتا تو میں قبول کر لیتا، آج نہیں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”ایسا زمانہ“ واقعتا رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد ایسا زمانہ آیا۔ قرب قیامت بھی ایسی صورت حال پیدا ہوجائے گی کہ دولت عام ہو جائے گی۔ صدقہ تو ایک طرف رہا، کوئی دولت (سونا وغیرہ) نہ اٹھائے گا۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، الزكاة، حدیث: ۱۰۱۳) (2) ”کل“ ضروری نہیں حقیقتاً گزشتہ کل ہی مراد ہو، بلکہ مراد اس سے پہلے کا زمانہ بھی ہو سکتا ہے، چاہے وہ سال دو سال یا اس سے کم و بیش ہی ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حارثہ بن وہب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ صدقہ کرو کیونکہ تم پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ آدمی اپنا صدقہ لے کر دینے چلے گا تو جس شخص کو وہ دینے جائے گا وہ شخص کہے گا: اگر تم کل لے کر آئے ہوتے تو میں لے لیتا، لیکن آج تو آج نہیں لوں گا۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : کیونکہ آج میں مالدار ہو گیا ہوں ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Harithah said: “I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: ‘Give charity, for there will come a time when a man will walk about with his charity, and the one to whom he wants to give it will say: If you had brought it yesterday I would have accepted it, but today (I have no need of it).” (Sahih)