Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: The Al-Mannan: One Who Reminds People Of What He Has Given Them)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2562.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے منقول ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”تین شخص ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کی طرف نہیں دیکھے گا: والدین کا نا فرمان، مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورت اور بے غیرت خاوند، نیز تین شخص جنت میں داخل نہ ہوں گے: ماں باپ کا نافرمان، ہمیشہ شراب پینے والا اور دے کر احسان جتلانے والا۔“
تشریح:
(1) ”نہیں دیکھے گا۔“ یعنی رحمت اور پیار ومحبت سے نہیں دیکھے گا کیونکہ اصل دیکھنا تو یہی ہوتا ہے، ورنہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ سے چھپا ہوا ہے، نہ چھپ ہی سکتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ سزا بھی اولاً ہے ورنہ آخر کار یہ بھی اگر مومن ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت بے کنار میں آہی جائیں گے۔ (2) ”والدین کا نافرمان۔“ یعنی ان کے حقوق ادا نہ کرنے والا۔ (3) ”مردوں سے مشابہت کرنے والی عورت۔“ یعنی ان معاملات میں جو مردوں کے ساتھ خاص ہیں، مثلاً: لباس، حجامت وغیرہ۔ یا مردوں جیسے کام کرے، مثلاً: کھیتوں میں ہل چلانا، حکومت اور سیاست کرنا وغیرہ، جن کاموں میں مردوں سے اختلاط ہو۔ (4) دیوث بے غیرت جسے اپنی بیوی، بیٹی یا بہن کے غیروں کے ساتھ ناجائز تعلقات پر کوئی اعتراض نہ ہو۔ (5) ”جنت میں نہیں جائیں گے۔“ یعنی اولاً، ورنہ سزا بھگتنے کے بعد تو ہر ایمان والا جنت میں جائے گا۔ صحیح روایات میں صراحت ہے۔ (6) ”ہمیشہ شراب پینے والا۔“ یعنی شراب پیتا رہا اور بغیر توبہ کیے مر گیا، خواہ زندگی کے آخر میں شراب شروع کی ہو۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 2 / 285 :
أخرجه الدارمي ( 2 / 112 ) و كذا النسائي ( 2 / 332 ) و البخاري في " التاريخ
الصغير " ( 124 ) و عبد الرزاق في " المصنف " ( 2 / 205 ) و ابن خزيمة في
" التوحيد " ( ص 236 ) و ابن حبان ( 1382 ، 1383 ) و الطحاوي في " المشكل "
( 1 / 395 ) و أحمد ( 2 / 201 ، 203 ) من طريق سالم بن أبي الجعد عن جابان عن
عبد الله بن عمرو عن النبي صلى الله عليه وسلم به . و ليس للبخاري منه إلا
الزيادة و قال : " لا يعلم لجابان سماع من عبد الله ، و لا لسالم سماع من جابان
و يروى عن علي بن زيد عن عيسى بن حطان عن عبد الله بن عمرو رفعه في أولاد الزنا
و لا يصح " . و قال ابن خزيمة : " ليس هذا الخبر من شرطنا لأن جابان مجهول " .
و رواه محمد بن مخلد العطار في " المنتقى من حديثه " ( 2 / 15 / 1 ) من طريق
عبد الله بن مرة عن جابان عن عبد الله بن عمرو به .
قلت : و علة هذا الإسناد ، جابان هذا ، فإنه لا يدرى من هو كما قال الذهبي ،
و إن وثقه ابن حبان على قاعدته . و الزيادة التي في آخره منكرة لأنها بظاهرها
تخالف النصوص القاطعة بأن أحدا لا يحمل وزر أحد و أنه لا يجني أحد على أحد و في
ذلك غير الآية أحاديث كثيرة ، خرجتها في " الإرواء " ( 2362 ) و لذلك أنكرتها
السيدة عائشة رضي الله عنها فقد روى عبد الرزاق عنها أنها كانت تعيب ذلك و تقول
: " ما عليه من وزر أبويه ، قال الله تعالى *( و لا تزر وازرة وزر أخرى )* " .
و إسناده صحيح . و قد رواه الطبراني في " الأوسط " ( 1 / 183 - 184 ) عنها
مرفوعا . و في إسناده من لم أعرفه . و كذا قال الهيثمي ( 6 / 257 ) . و قال
البيهقي ( 10 / 58 ) عقب الموقوف : " رفعه بعض الضعفاء ، و الصحيح موقوف " .
و من هذا تعلم أن قول السخاوي فيما نقله ابن عراق عنه ( 2 / 228 ) : " أخرجه
الطبراني من حديث عائشة ، و سنده جيد " . فهو غير جيد .
و قد وجدت للحديث شواهد يتقوى بها ، فقال الطحاوي ( 1 / 395 ) : حدثنا أبو أمية
حدثنا محمد بن سابق حدثنا إسرائيل ( في الأصل : أبو إسرائيل ) عن منصور عن أبي
الحجاج عن مولى لأبي قتادة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : فذكره بتمامه .
قلت : و هذا شاهد قوي رجاله كلهم ثقات غير مولى أبي قتادة ، فلم أعرفه لكنه إن
كان صحابيا ، فلا تضر الجهالة به لأن الصحابة كلهم عدول كما هو معلوم و من
المحتمل أن يكون منهم لأن الراوي عنه أبا الحجاج هو مجاهد بن جبر التابعي
المشهور . و قد ذكره ابن أبي حاتم في " العلل " ( 2 / 31 ) من طريق عبيد بن
إسحاق عن مسكين بن دينار التيمي عن مجاهد : حدثني زيد الجرشي قال : سمعت النبي
صلى الله عليه وسلم يقول : فذكره و قال : " قال أبي : هذا حديث منكر " .
قلت : و علته عبيد هذا و هو العطار ضعفه الجمهور . و قد اختلف على مجاهد في
إسناده هذا الحديث اختلافا كبيرا ، استوعب أبو نعيم في " الحلية " ( 3 / 307 -
309 ) طرقه . و قد جاء الحديث في بعضها بتمامه منها طريق عبيد هذه و غيرها
و بعضها في " المسند " ( 3 / 28 ، 44 ) و لم يرد في بعضها الآخر إلا الزيادة
التي في آخره و قد أخرجها الطحاوي ( 1 / 393 - 394 ) . و قد رويت هذه الزيادة
من حديث أبي هريرة و لكنها غير محفوظة عنه كما بينته في الكتاب الآخر ( 1462 )
. و جملة القول أن الحديث بهذه الطرق و الشواهد لا ينزل عن درجة الحسن . و الله
أعلم . و قوله " لا يدخل الجنة ولد زنية " ، ليس على ظاهره بل المراد به من
تحقق بالزنا حتى صار غالبا عليه ، فاستحق بذلك أن يكون منسوبا إليه ، فيقال :
هو ابن له ، كما ينسب المتحققون بالدنيا إليها ، فيقال لهم : بنو الدنيا بعلمهم
و تحققهم بها ، و كما قيل للمسافر ابن السبيل ، فمثل ذلك ولد زنية و ابن زنية ،
قيل لمن تحقق بالزنا ، حتى صار تحققه منسوبا إليه ، و صار الزنا غالبا عليه ،
فهو المراد بقوله " لا يدخل الجنة " و لم يرد به المولود من الزنا و لم يكن هو
من ذوي الزنا ، لما تقدم بيانه في الحديث الذي قبله . و هذا المعنى استفدته من
كلام أبي جعفر الطحاوي رحمه الله و شرحه لهذا الحديث . و الله أعلم .
ثم وجدت للحديث شاهدا آخر دون الزيادة ، و لفظه : " لا يلج حائط القدس : مدمن
خمر و لا العاق لوالديه و لا المنان عطاءه " . أخرجه أحمد ( 3 / 226 ) قال :
حدثنا هشيم حدثنا محمد بن عبد الله العمي عن علي بن زيد عن أنس بن مالك قال :
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : فذكره .
قلت : و علي بن زيد - و هو ابن جدعان - ضعيف . و محمد بن عبد الله العمي أورده
السمعاني في " الأنساب " من روايته عن ثابت البناني ، و رواية أبي النضر و غيره
عنه ، فهو مستور .
و بالجملة فهو شاهد لا بأس به . و يقويه ما أخرجه ابن خزيمة في " التوحيد "
( ص 237 ) من طريقين عن خالد بن الحارث قال : حدثنا شعبة عن يعلى بن عطاء عن
نافع عن عروة بن مسعود عن عبد الله بن عمرو أنه قال : " لا يدخل حظيرة القدس
سكير و لا عاق و لا منان " . و إسناده صحيح ، و هو موقوف في حكم المرفوع ، فهو
شاهد قوي لحديث أنس هذا . و مما يشهد له الحديث الآتي :
" ثلاثة لا ينظر الله عز وجل إليهم يوم القيامة : العاق لوالديه و المرأة
المترجلة و الديوث ، و ثلاثة لا يدخلون الجنة : العاق لوالديه و المدمن الخمر
و المنان بما أعطى " .
الصحيحة (674 )
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2563
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2561
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2563
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے منقول ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”تین شخص ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کی طرف نہیں دیکھے گا: والدین کا نا فرمان، مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورت اور بے غیرت خاوند، نیز تین شخص جنت میں داخل نہ ہوں گے: ماں باپ کا نافرمان، ہمیشہ شراب پینے والا اور دے کر احسان جتلانے والا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”نہیں دیکھے گا۔“ یعنی رحمت اور پیار ومحبت سے نہیں دیکھے گا کیونکہ اصل دیکھنا تو یہی ہوتا ہے، ورنہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ سے چھپا ہوا ہے، نہ چھپ ہی سکتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ سزا بھی اولاً ہے ورنہ آخر کار یہ بھی اگر مومن ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت بے کنار میں آہی جائیں گے۔ (2) ”والدین کا نافرمان۔“ یعنی ان کے حقوق ادا نہ کرنے والا۔ (3) ”مردوں سے مشابہت کرنے والی عورت۔“ یعنی ان معاملات میں جو مردوں کے ساتھ خاص ہیں، مثلاً: لباس، حجامت وغیرہ۔ یا مردوں جیسے کام کرے، مثلاً: کھیتوں میں ہل چلانا، حکومت اور سیاست کرنا وغیرہ، جن کاموں میں مردوں سے اختلاط ہو۔ (4) دیوث بے غیرت جسے اپنی بیوی، بیٹی یا بہن کے غیروں کے ساتھ ناجائز تعلقات پر کوئی اعتراض نہ ہو۔ (5) ”جنت میں نہیں جائیں گے۔“ یعنی اولاً، ورنہ سزا بھگتنے کے بعد تو ہر ایمان والا جنت میں جائے گا۔ صحیح روایات میں صراحت ہے۔ (6) ”ہمیشہ شراب پینے والا۔“ یعنی شراب پیتا رہا اور بغیر توبہ کیے مر گیا، خواہ زندگی کے آخر میں شراب شروع کی ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تین طرح کے لوگ ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ دیکھے گا، ایک ماں باپ کا نافرمان، دوسری وہ عورت جو مردوں کی مشابہت اختیار کرے، تیسرا دیوث (بے غیرت) اور تین شخص ایسے ہیں جو جنت میں نہ جائیں گے۔ ایک ماں باپ کا نافرمان، دوسرا عادی شرابی، اور تیسرا دے کر احسان جتانے والا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Salim bin ‘Abdullah that his father said: “The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘There are three at whom Allah will not look on the Day of Resurrection: The one who disobeys his parents, the woman who imitates men in her outward appearance, and the cuckold. And there are three who will not enter Paradise: The one who disobeys his parents, the drunkard, and the one who reminds people of what he has given them.”(Hasan)