باب: جو شخص اللہ کے نام پر مانگے اور خود اس کے نام پر نہ دے؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: One Who Ask For The Sake Of Allah, the Mighty And Sublime, But He Does Not Give)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2569.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ لوگوں میں سے بہترین رتبے والا کون شخص ہے؟“ ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! (ضرور بتائیں!) آپ نے فرمایا: ”وہ آدمی جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنا گھوڑا لیے پھرتا ہے حتیٰ کہ اسے موت آجاتی ہے یا وہ شہید ہو جاتا ہے۔ اور میں تمھیں وہ شخص بتاؤں جو اس کے قریب ہے؟“ ہم نے کہا: جی ہاں! اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”وہ شخص جو کسی پہاڑ کی گھاٹی میں علیحدہ رہتا ہے، نماز قائم کرتا ہے، زکاۃ ادا کرتا ہے اور لوگوں کے شر سے علیحدہ رہتا ہے، نیز بتاؤں، بدترین شخص کون ہے؟“ ہم نے کہا: جی ہاں اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”جو اللہ کے نام پر خود تو (لوگوں سے) مانگے، لیکن اس کے نام پر (کسی کو) نہ دے۔“
تشریح:
(1) ”گھوڑا لیے پھرتا ہے۔“ یعنی جہاد کرتا ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ مطلقاً اعلیٰ عمل ہے۔ اور پہاڑ کی گھاٹی میں علیحدہ رہنا صرف اس وقت افضل ہے جب دین کی حفاظت مقصود ہو اور لوگوں میں رہ کر دین پر قائم رہنا انتہائی مشکل ہو جائے، ورنہ لوگوں میں رہنا اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرنا ہی افضل ہے۔ رہبانیت کی اجازت نہیں۔ (2) ”لوگوں کے شر سے۔“ یعنی اپنے دین کو محفوظ کر لیتا ہے، یا یہ مطلب ہے کہ لوگوں کو تکلیف نہیں پہنچاتا۔ اپنے شر سے لوگوں کو محفوظ رکھنا بھی بڑی فضیلت ہے۔ (3) [اَلَّذِیْ یَسْأَلُ بِاللّٰہِ] کویُسْأَلُ (مجہول) بھی پڑھا گیا ہے، جس کا ترجمہ ہوگا: جس سے اللہ کے نام پر سوال کیا جائے لیکن وہ نہ دے۔ پہلے مفہوم میں دو قباحتیں جمع ہوجاتی ہیں: لوگوں سے مانگنا بھی اور خود نہ دینا بھی، جبکہ دوسرے مفہوم میں صرف ایک قباحت ہے۔ الفاظ حدیث دونوں مفہوم کے متحمل ہیں۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2570
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2568
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2570
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ لوگوں میں سے بہترین رتبے والا کون شخص ہے؟“ ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! (ضرور بتائیں!) آپ نے فرمایا: ”وہ آدمی جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنا گھوڑا لیے پھرتا ہے حتیٰ کہ اسے موت آجاتی ہے یا وہ شہید ہو جاتا ہے۔ اور میں تمھیں وہ شخص بتاؤں جو اس کے قریب ہے؟“ ہم نے کہا: جی ہاں! اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”وہ شخص جو کسی پہاڑ کی گھاٹی میں علیحدہ رہتا ہے، نماز قائم کرتا ہے، زکاۃ ادا کرتا ہے اور لوگوں کے شر سے علیحدہ رہتا ہے، نیز بتاؤں، بدترین شخص کون ہے؟“ ہم نے کہا: جی ہاں اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”جو اللہ کے نام پر خود تو (لوگوں سے) مانگے، لیکن اس کے نام پر (کسی کو) نہ دے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”گھوڑا لیے پھرتا ہے۔“ یعنی جہاد کرتا ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ مطلقاً اعلیٰ عمل ہے۔ اور پہاڑ کی گھاٹی میں علیحدہ رہنا صرف اس وقت افضل ہے جب دین کی حفاظت مقصود ہو اور لوگوں میں رہ کر دین پر قائم رہنا انتہائی مشکل ہو جائے، ورنہ لوگوں میں رہنا اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرنا ہی افضل ہے۔ رہبانیت کی اجازت نہیں۔ (2) ”لوگوں کے شر سے۔“ یعنی اپنے دین کو محفوظ کر لیتا ہے، یا یہ مطلب ہے کہ لوگوں کو تکلیف نہیں پہنچاتا۔ اپنے شر سے لوگوں کو محفوظ رکھنا بھی بڑی فضیلت ہے۔ (3) [اَلَّذِیْ یَسْأَلُ بِاللّٰہِ] کویُسْأَلُ (مجہول) بھی پڑھا گیا ہے، جس کا ترجمہ ہوگا: جس سے اللہ کے نام پر سوال کیا جائے لیکن وہ نہ دے۔ پہلے مفہوم میں دو قباحتیں جمع ہوجاتی ہیں: لوگوں سے مانگنا بھی اور خود نہ دینا بھی، جبکہ دوسرے مفہوم میں صرف ایک قباحت ہے۔ الفاظ حدیث دونوں مفہوم کے متحمل ہیں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں لوگوں میں مرتبہ کے اعتبار سے بہترین شخص کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں، ضرور بتائیے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”وہ شخص ہے جو اللہ کی راہ میں اپنے گھوڑے کا سر تھامے رہے یہاں تک کہ اسے موت آ جائے، یا وہ قتل کر دیا جائے، اور میں تمہیں اس شخص کے بارے میں بتاؤں جو مرتبہ میں اس سے قریب تر ہے۔“ ہم نے عرض کیا: جی ہاں، اللہ کے رسول! بتائیے، آپ نے فرمایا: ”یہ وہ شخص ہے جو لوگوں سے کٹ کر کسی وادی میں (گوشہ نشین ہو جائے) نماز قائم کرے، زکاۃ دے اور لوگوں کے شر سے الگ تھلگ رہے، اور میں تمہیں لوگوں میں برے شخص کے بارے میں بتاؤں؟“، ہم نے عرض کیا: جی ہاں، اللہ کے رسول! ضرور بتائیے، آپ نے فرمایا: ”وہ شخص ہے جس سے اللہ کے نام پر مانگا جائے اور وہ نہ دے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn ‘Abbas that the Messenger of Allah (ﷺ) said: “Shall I not tell you of the best of the people in status?” We said: “Yes, Messenger of Allah (ﷺ)!” He said: “A man who rides his horse in the cause of Allah, the Mighty and Sublime, until he dies or is killed. Shall I not tell you of the one who comes after him (in status)?’’ We said: “Yes, Messenger of Allah (ﷺ)!” He said: “A man who withdraws to a mountain pass and establishes Salah, and pays Zakah, and keeps away from the evil of people. Shall I not tell you of the worst of people?” We said: “Yes, Messenger of Allah (ﷺ)! ” He said: “The one who asks for the sake of Allah, the Mighty and Sublime, but does not give (when he is asked) for His sake.” (Hasan)