Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Giving Charity To Relatives)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2583.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی بیوی حضرت زینبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے (ایک دفعہ) عورتوں سے فرمایا: ”صدقہ کرو چاہے زیورات ہی سے ہو۔“ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ تقریباً خالی ہاتھ تھے۔ ان کی بیوی زینب ان سے کہنے لگیں: کیا اس بات کی گنجائش ہے کہ میں اپنا صدقہ آپ کو اور اپنے بھائی کے یتیم بچوں کو دے دوں؟ حضرت عبداللہ کہنے لگے: اس بارے میں رسول اللہﷺ سے پوچھو۔ وہ کہتی ہیں، میں نبیﷺ کے گھر آئی تو آپ کے دروازے پر ایک انصاری عورت کھڑی تھی۔ اس کا نام بھی زینب تھا۔ اس کا مطلوب بھی وہی تھا جو میرا تھا۔ اتنے میں حضرت بلال ؓ نکلے۔ ہم نے ان سے عرض کیا کہ رسول اللہﷺ کے پاس جائیں اور آپ سے یہ مسئلہ پوچھیں لیکن آپ کو یہ نہ بتانا کہ ہم کون ہیں؟ وہ رسول اللہﷺ کے پاس گئے (اور پوچھا) تو آپ نے فرمایا: ”وہ کون عورتیں ہیں؟“ انھوں نے کہا: زینب۔ آپ نے فرمایا: ”کون سی زینب؟“ انھوں نے عرض کیا: ایک زینب تو حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی بیوی اور دوسری زینب انصاری عورت ہے۔ آپ نے فرمایا: ”ہاں! انھیں دو اجر ملیں گے: قرابت (صلہ رحمی) کا اجر اور صدقے کا اجر۔“
تشریح:
(1) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بیوی اپنے خاوند کو زکاۃ دے سکتی ہے اگر وہ فقیر ہے تو، کیونکہ خاوند کے اخراجات کی ذمہ داری بیوی نہیں۔ مگر احناف اسے جائز نہیں سمجھتے، وہ اسے نفلی صدقے پر محمول کرتے ہیں لیکن حدیث کے الفاظ سے اس موقف کی تائید نہیں ہوتی۔ حدیث کے الفاظ عام ہیں جو دونوں قسم کے صدقات (نفلی اور فرضی زکاۃ دونوں) کو شامل ہیں۔ (2) ”یہ نہ بتانا کہ ہم کون ہیں؟“ یہ ایک روایتی بات تھی ورنہ ممکن نہیں تھا کہ متعلقہ افراد کا تعارف کروائے بغیر سوال کا صحیح جواب لیا جا سکے۔ اسی لیے حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے آپ کے پوچھنے پر فوراً بتا دیا کہ وہ کون ہیں، نیز انھوں نے نہ بتانے کا وعدہ بھی نہیں کیا تھا۔ علاوہ ازیں رسول للہﷺ کا فرمان عورتوں کی گزارش پر مقدم تھا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2584
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2582
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2584
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی بیوی حضرت زینبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے (ایک دفعہ) عورتوں سے فرمایا: ”صدقہ کرو چاہے زیورات ہی سے ہو۔“ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ تقریباً خالی ہاتھ تھے۔ ان کی بیوی زینب ان سے کہنے لگیں: کیا اس بات کی گنجائش ہے کہ میں اپنا صدقہ آپ کو اور اپنے بھائی کے یتیم بچوں کو دے دوں؟ حضرت عبداللہ کہنے لگے: اس بارے میں رسول اللہﷺ سے پوچھو۔ وہ کہتی ہیں، میں نبیﷺ کے گھر آئی تو آپ کے دروازے پر ایک انصاری عورت کھڑی تھی۔ اس کا نام بھی زینب تھا۔ اس کا مطلوب بھی وہی تھا جو میرا تھا۔ اتنے میں حضرت بلال ؓ نکلے۔ ہم نے ان سے عرض کیا کہ رسول اللہﷺ کے پاس جائیں اور آپ سے یہ مسئلہ پوچھیں لیکن آپ کو یہ نہ بتانا کہ ہم کون ہیں؟ وہ رسول اللہﷺ کے پاس گئے (اور پوچھا) تو آپ نے فرمایا: ”وہ کون عورتیں ہیں؟“ انھوں نے کہا: زینب۔ آپ نے فرمایا: ”کون سی زینب؟“ انھوں نے عرض کیا: ایک زینب تو حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی بیوی اور دوسری زینب انصاری عورت ہے۔ آپ نے فرمایا: ”ہاں! انھیں دو اجر ملیں گے: قرابت (صلہ رحمی) کا اجر اور صدقے کا اجر۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بیوی اپنے خاوند کو زکاۃ دے سکتی ہے اگر وہ فقیر ہے تو، کیونکہ خاوند کے اخراجات کی ذمہ داری بیوی نہیں۔ مگر احناف اسے جائز نہیں سمجھتے، وہ اسے نفلی صدقے پر محمول کرتے ہیں لیکن حدیث کے الفاظ سے اس موقف کی تائید نہیں ہوتی۔ حدیث کے الفاظ عام ہیں جو دونوں قسم کے صدقات (نفلی اور فرضی زکاۃ دونوں) کو شامل ہیں۔ (2) ”یہ نہ بتانا کہ ہم کون ہیں؟“ یہ ایک روایتی بات تھی ورنہ ممکن نہیں تھا کہ متعلقہ افراد کا تعارف کروائے بغیر سوال کا صحیح جواب لیا جا سکے۔ اسی لیے حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے آپ کے پوچھنے پر فوراً بتا دیا کہ وہ کون ہیں، نیز انھوں نے نہ بتانے کا وعدہ بھی نہیں کیا تھا۔ علاوہ ازیں رسول للہﷺ کا فرمان عورتوں کی گزارش پر مقدم تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کی بیوی زینب رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عورتوں سے فرمایا: ”تم صدقہ دو اگرچہ اپنے زیوروں ہی سے سہی“، وہ کہتی ہیں: عبداللہ بن مسعود ؓ (میرے شوہر) تنگ دست و مفلس تھے، تو میں نے ان سے پوچھا: کیا میرے لیے یہ گنجائش ہے کہ میں اپنا صدقہ آپ کو اور اپنے یتیم بھتیجوں کو دے دیا کروں؟ عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہ: اس بارے میں تم رسول اللہ ﷺ سے پوچھو۔ زینب ؓ کہتی ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ انصار کی ایک عورت اسے بھی زینب ہی کہا جاتا تھا آپ کے دروازے پر کھڑی ہے، وہ بھی اسی چیز کے بارے میں پوچھنا چاہتی تھی جس کے بارے میں میں پوچھنا چاہتی تھی۔ اتنے میں بلال ؓ اندر سے نکل کر ہماری طرف آئے، تو ہم نے ان سے کہا: آپ رسول اللہ ﷺ کے پاس جائیں، اور آپ سے اس کے بارے میں پوچھیں، اور آپ کو یہ نہ بتائیں کہ ہم کون ہیں، چنانچہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے (اور آپ سے پوچھا) آپ نے پوچھا: یہ دونوں کون ہیں؟ انہوں نے کہا: زینب، آپ نے فرمایا: کون سی زینب؟ انہوں نے کہا: ایک زینب تو عبداللہ بن مسعود ؓ کی بیوی، اور ایک زینب انصار میں سے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”ہاں (درست ہے) انہیں دوہرا ثواب ملے گا ایک رشتہ داری کا اور دوسرا صدقے کا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Zainab, the wife of ‘Abdullah (RA), said: “The Messenger of Allah (ﷺ) said to women: ‘Give charity, even from your jewelry.’ ‘Abdullah was not a wealthy man and she said to him: ‘Can I spend my charity on you and on my brother’s children who are orphans?’ ‘Abdullah said: ‘Ask the Messenger of Allah (ﷺ) about that.’ She said: ‘So I went to the Messenger of Allah (ﷺ) and at his door I found a woman from among the Ansar who was also called Zainab, and she was asking about the same matter as I was. Bilal (RA) came out to us and we said to him: Go to the Messenger of Allah (ﷺ) and ask him about that, but do not tell him who we are. He went to the Messenger of Allah (ﷺ) and he said: ‘Who are they?’ He said: ‘Zainab.’ He said: ‘Which Zainab?” He said: ‘Zainab the wife of ‘Abdullah and Zainab Al-Ansáriyyah.’ He said: ‘Yes, they will have two rewards, the reward for upholding the ties of kinship and the reward for giving charity.” (Sahih)