باب: جب کسی شخص کے پاس (چالیس)درہم تو نہ ہوں مگر اتنی مالیت کی اور چیز ہو تو؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: If He Does Not Have Any Dirhams But He Has The Equivalent)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2596.
بنو اسد کے ایک شخص سے روایت ہے کہ میں اور میری بیوی بقیع الغرقد میں فروکش ہوئے (آئے) تو مجھے میری بیوی کہنے لگی: رسول اللہﷺ کے پاس جاؤ اور کھانے کی کوئی چیز مانگ لاؤ۔ میں رسول اللہﷺ کے پاس گیا تو میں نے آپ کے پاس ایک اور آدمی بیٹھا پایا جو آپ سے مانگ رہا تھا اور رسول اللہﷺ فرما رہے تھے: ”میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جو میں تجھے دے سکوں۔“ وہ آدمی غصے کی حالت میں اٹھ کر چلا گیا اور کہنے لگا: میری زندگی کی قسم! جس کو آپ کی مرضی ہو، دے دیتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”یہ مجھ پر اس لیے ناراض ہے کہ میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جو میں اسے دے سکوں (یاد رکھو!) تم میں سے جس شخص نے ایک اوقیہ یا اس کے مساوی دولت کی چیز کا مالک ہونے کے باوجود مانگا تو گویا اس نے اصرار کے ساتھ مانگا (جو کہ مذموم ہے۔‘‘) اسدی شخص نے کہا کہ میں نے (اپنے دل میں) کہا: ہماری دودھ والی اونٹنی یقینا ایک اوقیے سے بڑھ کر ہے۔ اور اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔ تو میں مانگے بغیر اٹھ آیا۔ کچھ دیر بعد رسول اللہﷺ کے پاس کچھ جو اور کشمش آگئی۔ آپ نے وہ ہم میں تقسیم فر دیے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں غنی کر دیا۔
تشریح:
(1) ”جس کو آپ کی مرضی ہو۔“ یعنی آپ استحقاق کی بنا پر نہیں، اپنی ذاتی پسند کی بنا پر دیتے ہیں۔ ممکن ہے وہ شخص منافق ہو یا شاید جذبات کی رو میں بہہ کر کہہ بیٹھا ہو۔ (2) ”بقیع الغرقد“ مدینہ منورہ سے متصل وسیع خالی میدان ہے جہاں قبرستان بھی ہے۔ بیرونی قافلے وہاں اترتے تھے۔ اس حدیث کے راوی اسدی بھی باہر ہی سے آئے تھے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وصححه ابن الجارود) .
إسناده: حدثنا عبد الله بن مسلمة عن مالك عن زيد بن أسلم عن عطاء بن
يسار عن رجل من بني أسَد.
قلت: إسناده صحيح، رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير الرجل الأسَدِي،
فهو صحابي، ولا تضر جهالة اسمه؛ فإنهم عدول كلهم.
والحديث أخرجه مالك في آخر "الموطأ" (3/159- 160) ... بهذا الإسناد والمتن.
وأخرجه النسائي (1/363) ، وابن الجارود (366) من طريق أخرى عن
مالك... به.
وتابعه سفيان عن زيد بن أسلم... به مقتصراً على قوله: " من سأل وله
أوقية أو عِدْلُها؛ فقد سأل إلحافاً ".
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2597
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2595
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2597
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
بنو اسد کے ایک شخص سے روایت ہے کہ میں اور میری بیوی بقیع الغرقد میں فروکش ہوئے (آئے) تو مجھے میری بیوی کہنے لگی: رسول اللہﷺ کے پاس جاؤ اور کھانے کی کوئی چیز مانگ لاؤ۔ میں رسول اللہﷺ کے پاس گیا تو میں نے آپ کے پاس ایک اور آدمی بیٹھا پایا جو آپ سے مانگ رہا تھا اور رسول اللہﷺ فرما رہے تھے: ”میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جو میں تجھے دے سکوں۔“ وہ آدمی غصے کی حالت میں اٹھ کر چلا گیا اور کہنے لگا: میری زندگی کی قسم! جس کو آپ کی مرضی ہو، دے دیتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”یہ مجھ پر اس لیے ناراض ہے کہ میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جو میں اسے دے سکوں (یاد رکھو!) تم میں سے جس شخص نے ایک اوقیہ یا اس کے مساوی دولت کی چیز کا مالک ہونے کے باوجود مانگا تو گویا اس نے اصرار کے ساتھ مانگا (جو کہ مذموم ہے۔‘‘) اسدی شخص نے کہا کہ میں نے (اپنے دل میں) کہا: ہماری دودھ والی اونٹنی یقینا ایک اوقیے سے بڑھ کر ہے۔ اور اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔ تو میں مانگے بغیر اٹھ آیا۔ کچھ دیر بعد رسول اللہﷺ کے پاس کچھ جو اور کشمش آگئی۔ آپ نے وہ ہم میں تقسیم فر دیے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں غنی کر دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ”جس کو آپ کی مرضی ہو۔“ یعنی آپ استحقاق کی بنا پر نہیں، اپنی ذاتی پسند کی بنا پر دیتے ہیں۔ ممکن ہے وہ شخص منافق ہو یا شاید جذبات کی رو میں بہہ کر کہہ بیٹھا ہو۔ (2) ”بقیع الغرقد“ مدینہ منورہ سے متصل وسیع خالی میدان ہے جہاں قبرستان بھی ہے۔ بیرونی قافلے وہاں اترتے تھے۔ اس حدیث کے راوی اسدی بھی باہر ہی سے آئے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
قبیلہ بنی اسد کے ایک شخص کہتے ہیں کہ میں اور میری بیوی دونوں بقیع الغرقد میں اترے، میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جا کر ہمارے لیے کھانے کی کوئی چیز مانگ کر لائیے، تو میں رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا۔ مجھے آپ کے پاس ایک شخص ملا جو آپ سے مانگ رہا تھا، اور آپ اس سے فرما رہے تھے: ”میرے پاس (اس وقت) تمہیں دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔“ وہ شخص آپ کے پاس سے پیٹھ پھیر کر غصے کی حالت میں یہ کہتا ہوا چلا: قسم ہے میری زندگی کی! آپ تو اسی کو دیتے ہیں جسے چاہتے ہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”(خواہ مخواہ) مجھ پر اس بات پر غصہ ہو رہا ہے کہ میرے پاس اسے دینے کے لیے کچھ نہیں ہے، (ہوتا تو اسے دیتا ویسے تم لوگ جان لو کہ) تم میں سے جس کے پاس چالیس درہم ہو یا چالیس درہم کی قیمت کے برابر کا مال ہو، اور اس نے مانگا تو اس نے چمٹ کر مانگا “، اسدی (جو اس حدیث کے راوی ہیں) کہتے ہیں: میں نے (دل میں) کہا: ہماری دو دھاری اونٹنی ایک اوقیہ سے تو بہتر ہی ہے، اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے، چنانچہ میں آپ سے بغیر کچھ مانگے لوٹ آیا۔ پھر آپ کے پاس جَو اور کشمش آئے، تو آپ نے ہم کو بھی اس میں سے حصہ دیا، یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے ہم کو مالدار کر دیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Ata'bin Yasar that a man from Banu Asad said: "My wife and I stopped at Baqi Al-Gharqad, and my wife said to me: 'Go to the Messenger of Allah and ask him to give us something to eat. ' So I went to the Messenger of Allah and found a man with him asking him (for something), and the Messenger of Allah was saying: 'I do not have anything to give to you.' The man turned away angrily, saying: 'You only give to those you want. 'The Messenger of Allah said: 'He is angry with me because I did not have anything to give him. Whoever asks of you and he has an Uqiyah or its equivalent, then he has been too demanding in asking."' Al-Asadi said: I said: 'Our milch-camel is worth more than an Uqiyah, 'and an Uqiyah is forty Dirhams. "So I went back and did not ask him for anything. Then the Messenger of Allah got some barley and raisins after that, and he gave us a share of them, until Allah, the Mighty and Sublime, made us independent of means.