باب: جب کسی شخص کے پاس (چالیس)درہم تو نہ ہوں مگر اتنی مالیت کی اور چیز ہو تو؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: If He Does Not Have Any Dirhams But He Has The Equivalent)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2597.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”زکاۃ وصدقات کسی مال دار شخص یا کسی طاقت ور تندرست شخص کے لیے جائز نہیں۔“
تشریح:
طاقت ور سے مراد وہ ہے جو کمائی کر سکے، نہ کہ پہلوان۔ اور تندرست سے مراد ہے کہ اس کے ہاتھ پاؤں صحیح ہوں، معذور نہ ہو، البتہ ایسا شخص اگر باوجود محنت کے فقیر ہو تو وہ مستحق ہوگا کیونکہ رسول اللہﷺ کا مقصد یہ ہے کہ زکاۃ نکھٹوؤں کے لیے جائز نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2598
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2596
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2598
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”زکاۃ وصدقات کسی مال دار شخص یا کسی طاقت ور تندرست شخص کے لیے جائز نہیں۔“
حدیث حاشیہ:
طاقت ور سے مراد وہ ہے جو کمائی کر سکے، نہ کہ پہلوان۔ اور تندرست سے مراد ہے کہ اس کے ہاتھ پاؤں صحیح ہوں، معذور نہ ہو، البتہ ایسا شخص اگر باوجود محنت کے فقیر ہو تو وہ مستحق ہوگا کیونکہ رسول اللہﷺ کا مقصد یہ ہے کہ زکاۃ نکھٹوؤں کے لیے جائز نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”صدقہ کسی مالدار، طاقتور اور صحیح سالم شخص کے لیے درست نہیں۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Hurairah said: "The Messenger of Allah said: 'It is not permissible to give charity to a rich man (or one who is independent of means) or to one who is strong and healthy.