باب: کمائی کر سکنے والے طاقت ور شخص کے لیے مانگنا جائز نہیں
)
Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: A Strong And Healthy Man Asking (For Help))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2598.
حضرت عبیداللہ بن عدی بن خیار سے روایت ہے کہ دو آدمیوں نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ رسول اللہﷺ کے پاس زکاۃ و صدقات مانگنے آئے۔ آپﷺ نے انھیں غور سے دیکھا تو انھیں موٹا تازہ پایا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اگر تم مجبور کرو تو میں تمہیں دے دیتا ہوں لیکن مال دار، کما سکنے والے طاقت ور شخص کا زکاۃ میں کوئی حصہ نہیں۔‘‘
تشریح:
دیکھیے حدیث: ۲۶۰۰۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري، وصححه ابن عبد الهادي،
وجَودَهُ أحمد) .
إسناده: حدثنا مسدد: ثنا عيسى بن يونس: ثنا هشام بن عروة عن أبيه عن
عبيد الله بن عَدِي بن الخِيَارِ قال: أخبرني رجلان...
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير مسدد،
فهو من رجال البخاري وحده.
والرجلان صحابيان، لا يضر جهالتنا باسميهما؛ لأن الصحابة كلهم عدول،
كما ذكرنا ذلك مراراً. وأما قول الشيخ الأعظمي في تعليقه على "مصنف عبد الرزاق "
(4/110) - بعد أن عزاه للمصنف ،وذكر أنه متصل-:
" وفيه ما فيه "!
فمما لا معنى له!
والحديث مخرج في "الإرواء" (876) ؛ وأزيد هنا فأقول:
قد رواه عبد الرزاق (7154) عن معمر عن هشام بن عروة... به؛ إلا أنه
أرسله عن عبيد الله بن عدي؛ لم يقل: أخبرني رجلان!
والوصل أصح؛ لأنه زيادة ثقة؛ لا سيما ومعمر في روايته عن هشام بن عروة
شيء.
ثم وجدت سفيان- وهو ابن عيينة- رواه عن هشام... مثل رواية عيسى:
أخرجه الشافعي (1/242) .
الإرواء ( 876 )
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2599
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2597
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2599
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت عبیداللہ بن عدی بن خیار سے روایت ہے کہ دو آدمیوں نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ رسول اللہﷺ کے پاس زکاۃ و صدقات مانگنے آئے۔ آپﷺ نے انھیں غور سے دیکھا تو انھیں موٹا تازہ پایا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اگر تم مجبور کرو تو میں تمہیں دے دیتا ہوں لیکن مال دار، کما سکنے والے طاقت ور شخص کا زکاۃ میں کوئی حصہ نہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
دیکھیے حدیث: ۲۶۰۰۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبیداللہ بن عدی بن خیار رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ دو شخصوں نے ان سے بیان کیا کہ وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، دونوں آپ سے صدقہ مانگ رہے تھے، تو آپ نے نگاہ الٹ پلٹ کر انہیں دیکھا (محمد کی روایت میں ( نگاہ کے بجائے) اپنی نگاہ ہے تو دونوں کو ہٹا کٹا پایا، تو آپ نے فرمایا: ”اگر چاہو تو لے لو، (لیکن یہ جان لو) کہ مالدار اور کما سکنے والے شخص کے لیے اس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Ubaidullah bin 'Adiyy bin Al-Khiyar narrated that: two men told him, that they came to the Messenger of Allah asking him for charity. He looked from one to the other and he saw that they were strong. The Messenger of Allah said: "If you want, I will give you, but no rich man or one who is strong and able to earn has a share of it.