Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Asking When There Is No Alternative)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2602.
حضرت حکیم بن حزام ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے (مال) مانگا، آپ نے دے دیا۔ میں نے پھر مانگا، آپ نے پھر دے دیا۔ میں نے پھر مانگا، آپ نے پھر دیا۔ اور فرمایا: ”اے حکیم! بلا شبہ یہ مال سبز وشیریں ہے۔ جو شخص اسے قناعت قلب کے ساتھ لے گا، اس کے لیے اس میں برکت ہوگی۔ اور جو شخص اسے دلی طمع ولالچ کے ساتھ لے گا، اس کے لیے اس میں برکت نہ ہوگی۔ اور وہ اس شخص کی طرح ہوگا جو کھاتا ہے مگر سیر نہیں ہوتا۔ اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے (بہر صورت) بہتر ہے۔“
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2603
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2601
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2603
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت حکیم بن حزام ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے (مال) مانگا، آپ نے دے دیا۔ میں نے پھر مانگا، آپ نے پھر دے دیا۔ میں نے پھر مانگا، آپ نے پھر دیا۔ اور فرمایا: ”اے حکیم! بلا شبہ یہ مال سبز وشیریں ہے۔ جو شخص اسے قناعت قلب کے ساتھ لے گا، اس کے لیے اس میں برکت ہوگی۔ اور جو شخص اسے دلی طمع ولالچ کے ساتھ لے گا، اس کے لیے اس میں برکت نہ ہوگی۔ اور وہ اس شخص کی طرح ہوگا جو کھاتا ہے مگر سیر نہیں ہوتا۔ اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے (بہر صورت) بہتر ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے مانگا تو آپ نے مجھے دیا، پھر مانگا تو آپ نے پھر دیا، پھر مانگا تو آپ نے پھر دیا، پھر آپ نے فرمایا: ”حکیم! یہ مال ہری بھری اور میٹھی چیز ہے۔ جو اسے طبیعت کی فیاضی کے ساتھ لے گا تو اسے اس میں برکت دی جائے گی، اور جو نفس کی حرص و لالچ کے ساتھ لے گا تو اسے اس میں برکت نہیں دی جائے گی۔ اور وہ اس شخص کی طرح ہو گا جو کھاتا ہو لیکن آسودہ نہ ہوتا ہو، اور اوپر والا ہاتھ بہتر ہے نیچے والے ہاتھ سے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Hakim bin Hizam said: “I asked the Messenger of Allah (ﷺ) and he gave me, then I asked him and he gave me, then I asked him and he gave me. Then he said: ‘Hakim! This wealth is attractive and sweet. Whoever takes it without being greedy, it will be blessed for him, and whoever takes it with avarice, it will not be blessed for him. He is like one who eats and is not satisfied. And the upper hand is better than the lower hand.” (Sahih)