Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Asking When There Is No Alternative)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2603.
حضرت حکیم بن حزام ؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے کچھ مانگا۔ آپ نے دیا۔ میں نے پھر مانگا، آپ نے پھر دیا۔ پھر فرمایا: ”اے حکیم! بلاشبہ یہ مال شیریں (چیز کی طرح اچھا لگتا) ہے لیکن جو شخص اسے بے نیازی سے حاصل کرے گا، اس کے لیے اس میں برکت ہوگی۔ اور جو لالچ کے ساتھ حاصل کرے گا، اس کے لیے اس میں برکت نہ ہوگی۔ اور وہ اس شخص کی طرح ہوگا جو کھاتا ہے مگر سیر نہیں ہوتا۔ اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں آپ (کے اس فرمان) کے بعد کبھی کسی سے کچھ نہ لوں گا حتیٰ کہ میں دنیا چھوڑ جاؤں۔
تشریح:
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ اس قسم وعہد پر اس قدر پختہ رہے کہ بعد میں خلفائے راشدین انھیں بیت المال سے ان کا وظیفہ دیتے تو اسے بھی قبول نہ فرماتے۔ فاروق اعظم حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی بنا پر فرمایا تھا: ”اے مسلمانوں (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ) کی جماعت! تم گواہ رہو کہ میں حکیم کو ان کا حق دیتا ہوں لیکن وہ اپنا حق لینے سے انکار کرتے ہیں۔“ (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: ۱۴۷۲) اسی حال میں خالق حقیقی سے جاملے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2604
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2602
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2604
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت حکیم بن حزام ؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے کچھ مانگا۔ آپ نے دیا۔ میں نے پھر مانگا، آپ نے پھر دیا۔ پھر فرمایا: ”اے حکیم! بلاشبہ یہ مال شیریں (چیز کی طرح اچھا لگتا) ہے لیکن جو شخص اسے بے نیازی سے حاصل کرے گا، اس کے لیے اس میں برکت ہوگی۔ اور جو لالچ کے ساتھ حاصل کرے گا، اس کے لیے اس میں برکت نہ ہوگی۔ اور وہ اس شخص کی طرح ہوگا جو کھاتا ہے مگر سیر نہیں ہوتا۔ اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں آپ (کے اس فرمان) کے بعد کبھی کسی سے کچھ نہ لوں گا حتیٰ کہ میں دنیا چھوڑ جاؤں۔
حدیث حاشیہ:
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ اس قسم وعہد پر اس قدر پختہ رہے کہ بعد میں خلفائے راشدین انھیں بیت المال سے ان کا وظیفہ دیتے تو اسے بھی قبول نہ فرماتے۔ فاروق اعظم حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی بنا پر فرمایا تھا: ”اے مسلمانوں (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ) کی جماعت! تم گواہ رہو کہ میں حکیم کو ان کا حق دیتا ہوں لیکن وہ اپنا حق لینے سے انکار کرتے ہیں۔“ (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: ۱۴۷۲) اسی حال میں خالق حقیقی سے جاملے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے مانگا تو آپ نے مجھے دیا، میں نے پھر مانگا تو آپ نے پھر دیا۔ پھر آپ نے فرمایا: ”اے حکیم! یہ مال میٹھی چیز ہے، جو شخص اسے نفس کی فیاضی کے ساتھ لے گا تو اس میں اسے برکت دی جائے گی، اور جو شخص اسے حرص و طمع کے ساتھ لے گا تو اسے اس میں برکت نہیں دی جائے گی۔ اور وہ اس شخص کی طرح ہو گا جو کھائے تو لیکن اس کا پیٹ نہ بھرے۔ اور (جان لو) اوپر والا ہاتھ بہتر ہے نیچے والے سے۔“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے آپ کے بعد اب کسی سے کچھ نہ لوں گا یہاں تک کہ دنیا سے رخصت ہو جاؤں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Hakim bin Hizam said: “I asked the Messenger of Allah (ﷺ) and he gave me, then I asked him and he gave me. Then he said: ‘Hakim, this wealth is attractive and Sweet. Whoever takes it without being greedy, it will be blessed for him, and whoever takes it with avarice, it will not be blessed for him. He is like one who eats and is not satisfied. And the upper hand is better than the lower hand.’ I said: ‘Messenger of Allah (ﷺ)! By the One Who sent you with the truth, I will never ask anyone for anything after you, until I depart this world.” (Sahih)