کتاب: کون سی چیزیں غسل واجب کرتی ہیں اور کون سی نہیں؟
(
باب: جنبی اگر وضو نہ کرے تو؟
)
Sunan-nasai:
Mention When Ghusal (A Purifying Bath) Is Obligatory And When It Is Not
(Chapter: If A Junub Person Does Not Perform Wudu)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
261.
حضرت علی ؓ سے مروی ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اس گھر میں (رحمت کے) فرشتے داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر، کتا یا جنبی ہو۔‘‘
تشریح:
(1) وضو کرنے سے جنابت ختم تو نہیں ہوتی مگر ایک قسم کی طہارت حاصل ہو ہی جاتی ہے۔ خصوصاً جنبی کے اعضائے وضو تو پاک ہو ہی جاتے ہیں، لہٰذا جنبی کے لیے آئندہ نماز تک غسل میں رعایت ہے، البتہ وضو کرلے اور یہ افضل ہے جس طرح کہ دیگر احادیث میں آتا ہے۔ اگر شرم گاہ وغیرہ دھو کر بلاوضو بھی سو جائے تو کوئی حرج نہیں اور یہ بھی جائز ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو جایا کرتے تھے جبکہ آپ جنبی ہوتے اور پانی کو چھوتے تک نہیں تھے۔ یہ حدیث صحیح ہے، شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ نے انتہائی محققانہ دقیق علمی اسلوب میں تفصیلاً اس حدیث کی حجیت کا اثبات کیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (شرح الترمذي از أحمد شاکر: ۲۰۲/۱)، نیز آخر میں انھوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ انسان بااختیار ہے۔ وضو کر کے سونا افضل اور بلاوضو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سو جانا بیان جواز کی خاطر تھا۔ مذکورہ حدیث کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی صحیح قرار دیا ہے اور یہی بات حق ہے۔ واللہ أعلم۔ اس موقف کی مزید تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرماتے ہیں: کیا ہم میں سے کوئی جنابت کی حالت میں (بلاوضو) سو سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سو سکتا ہے، اگر چاہے تو وضو کرلے۔‘‘ گویا وضو کرنا اس کی مرضی پر موقوف ہے۔ دیکھیے: (صحیح ابن خزیمة، حدیث: ۲۲۱، و موارد الظمآن، حدیث: ۲۳۲) مزید دیکھیے: (صحیح موارد الظمآن للألباني، حدیث: ۱۹۵) (2) فرشتوں سے رحمت کے فرشتے مراد ہیں نہ کہ مطلق فرشتے کیونکہ محافظ فرشتے یا کاتب فرشتے بھی اس حالت میں انسان کے پاس آ جاتے ہیں جنابت کے باوجود انسان کے پاس رہتے ہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ روایت سنداً ضعیف ہے لیکن درست بات یہ ہے کہ ولاجنب، کے اضافے کے بغیر باقی حدیث صحیح ہے کیونکہ صحیحین کی روایت سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: ۳۲۲۵، و صحیح مسلم، اللباس والزینۃ، حدیث: ۲۱۰۶، و ضعیف سنن أبي داود (مفصل) للألباني، حدیث: ۳۰) لہٰذا جنبی کے حوالے سے یہ کہنا کہ اس کی وجہ سے رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے، درست نہیں کیونکہ یہ روایت ہی ضعیف ہے۔ اگرچہ ہمارے فاضل محقق نے پور ی روایت کو قابل حجت سمجھا ہے، تاہم بشرط صحت جنبی سے مراد وہ جنبی ہوگا جو بلاضرورت غسل میں تاخیر کرتا ہے ورنہ نماز کے وقت تک غسل مؤخر کرنے والا اس وعید کے زمرے میں نہیں آتا کیونکہ اس میں رخصت ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سب بیویوں کے پاس جاتے اور غسل آخر میں فرماتے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: فعلة الحديث: جهالة هذا الرجل) .
إسناده: حدثنا موسى بن إسماعيل: ثنا حماد قال: أنا عطاء الخراساني عن
يحيى بن يعمر.
وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات رجال مسلم؛ فظاهره الصحة. وقد اغتر بذلك
بعض من صححه كما يأتي! ولكنه معلول، كما بينه المؤلف. وقال الدارقطني في
يحيى بن يعمر:
" لم يلْق عماراً؛ إلا أنه صحيح الحديث عمن لقيه " .
فالحديث منقطع، أو موصول من طريق مجهول.
على أن مداره على عطاء الخراساني؛ وفيه كلام، قال الحافظ في " التقريب " :
" صدوق يهم كثيراً ".
والحديث أخرجه الترمذي (2/511- 512) ، وعنه البغوي في " شرح السنة "
(2/34) من طريق حماد بن سلمة... به. وقال الترمذي:
" حديث حسن صحيح " !
كذا قال! ووافقه المعلق عليه الأستاذ أحمد محمد شاكر، فقال- بعد أن نقل
كلام المصنف في إعلاله، وكذا ما ذكرناه عن الدارقطني-:
" وعمار قتل بصفين سنة 37؛ فليس ببعيد أن يلقاه يحيى بن يعمر. وقد روى
عن عثمان وهو أقدم من عمار. ويحيى ثقة لم يعرف بتدليس. فالحديث صحيح،
كما قال الترمذي " !
قلت: وهذا كلام وجيه في رد كلام الدارقطني.
وأما المصنف فقد ادعى أنه بين يحيى بن يعمر وعمار بن يسار في هذا
الحديث رجل: وهي دعوى صحيحة، كما يأتي، فلا يكفي في ردها مجرد إثبات
إمكان اللقاء بين يحيى وعمار؛ ما دام أن بعض الثقات أدخل بينهما رجلاً، وزيادة
الثقة مقبولة:
فقد أخرج أحمد من طريق عمر بن عطاء بن أبي الخُوارِ: أنه سمع يحيى بن
يعمر يخبر عن رجل أخبره عن عمار بن ياسر... الحديث.
وسيأتي بأتم مما هنا في " الترجل " (رقم...) [8- باب في الخلوق للرجال].
والحديث أخرجه الطحاوي أيضاً (1/76) .
حضرت علی ؓ سے مروی ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اس گھر میں (رحمت کے) فرشتے داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر، کتا یا جنبی ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) وضو کرنے سے جنابت ختم تو نہیں ہوتی مگر ایک قسم کی طہارت حاصل ہو ہی جاتی ہے۔ خصوصاً جنبی کے اعضائے وضو تو پاک ہو ہی جاتے ہیں، لہٰذا جنبی کے لیے آئندہ نماز تک غسل میں رعایت ہے، البتہ وضو کرلے اور یہ افضل ہے جس طرح کہ دیگر احادیث میں آتا ہے۔ اگر شرم گاہ وغیرہ دھو کر بلاوضو بھی سو جائے تو کوئی حرج نہیں اور یہ بھی جائز ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو جایا کرتے تھے جبکہ آپ جنبی ہوتے اور پانی کو چھوتے تک نہیں تھے۔ یہ حدیث صحیح ہے، شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ نے انتہائی محققانہ دقیق علمی اسلوب میں تفصیلاً اس حدیث کی حجیت کا اثبات کیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (شرح الترمذي از أحمد شاکر: ۲۰۲/۱)، نیز آخر میں انھوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ انسان بااختیار ہے۔ وضو کر کے سونا افضل اور بلاوضو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سو جانا بیان جواز کی خاطر تھا۔ مذکورہ حدیث کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی صحیح قرار دیا ہے اور یہی بات حق ہے۔ واللہ أعلم۔ اس موقف کی مزید تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرماتے ہیں: کیا ہم میں سے کوئی جنابت کی حالت میں (بلاوضو) سو سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سو سکتا ہے، اگر چاہے تو وضو کرلے۔‘‘ گویا وضو کرنا اس کی مرضی پر موقوف ہے۔ دیکھیے: (صحیح ابن خزیمة، حدیث: ۲۲۱، و موارد الظمآن، حدیث: ۲۳۲) مزید دیکھیے: (صحیح موارد الظمآن للألباني، حدیث: ۱۹۵) (2) فرشتوں سے رحمت کے فرشتے مراد ہیں نہ کہ مطلق فرشتے کیونکہ محافظ فرشتے یا کاتب فرشتے بھی اس حالت میں انسان کے پاس آ جاتے ہیں جنابت کے باوجود انسان کے پاس رہتے ہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ روایت سنداً ضعیف ہے لیکن درست بات یہ ہے کہ ولاجنب، کے اضافے کے بغیر باقی حدیث صحیح ہے کیونکہ صحیحین کی روایت سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: ۳۲۲۵، و صحیح مسلم، اللباس والزینۃ، حدیث: ۲۱۰۶، و ضعیف سنن أبي داود (مفصل) للألباني، حدیث: ۳۰) لہٰذا جنبی کے حوالے سے یہ کہنا کہ اس کی وجہ سے رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے، درست نہیں کیونکہ یہ روایت ہی ضعیف ہے۔ اگرچہ ہمارے فاضل محقق نے پور ی روایت کو قابل حجت سمجھا ہے، تاہم بشرط صحت جنبی سے مراد وہ جنبی ہوگا جو بلاضرورت غسل میں تاخیر کرتا ہے ورنہ نماز کے وقت تک غسل مؤخر کرنے والا اس وعید کے زمرے میں نہیں آتا کیونکہ اس میں رخصت ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سب بیویوں کے پاس جاتے اور غسل آخر میں فرماتے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
علی ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کوئی تصویر، کتا یا جنبی ہو۔“
حدیث حاشیہ:
اس سے مراد رحمت اور برکت کے فرشتے ہیں، نہ کہ وہ فرشتے جو جنبی اور غیر جنبی کسی سے جدا نہیں ہوتے۔ تصویر سے مراد جاندار کی تصویر ہے۔ کتا سے مراد وہ کتا ہے جو شکار یا گھر اور کھیت وغیرہ کی رکھوالی کے لیے نہ ہو۔ جنبی سے مراد وہ جنبی ہے جو غسل میں سستی کرتا ہو، اور دیر سے غسل کرنا اس کی عادت ہو گئی ہو، یا وہ جنبی ہے جس نے وضو نہ کیا ہو جیسا کہ مصنف نے باب کے ذریعہ اشارہ کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from ‘Ali that the Prophet (ﷺ) said: “The angels do not enter a house where there is an image, a dog or a Junub person.” (Hasan)