Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: The Son Of The Daughter Of A People, Is One Of Them)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2610.
حضرت شعبہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ایاس معاویہ بن قرہ سے پوچھا: کیا تم نے حضرت انس بن مالک ؓ سے سنا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”کسی قوم کا بھانجا بھی اس قوم میں شامل ہے؟“ انھوں نے کہا: ہاں۔
تشریح:
امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ بنو ہاشم کا بھانجا بھی زکاۃ کا مستحق نہیں کیونکہ وہ بھی بنو ہاشم میں شامل ہے۔ اسی طرح اس روایت سے بعض حضرات نے بھانجے کی وراثت پر بھی استدلال کیا ہے، حالانکہ یہاں وراثت کی بحث ہی نہیں۔ آپ کا مطلب تو یہ ہے کہ بھانجے کا اپنے ماموؤں کے ساتھ قوی تعلق ہوتا ہے، لہٰذا اسے ان سے غیر متعلق نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ ارشاد آپ نے اس وقت فرمایا تھا جب آپ نے صرف انصار کو بلایا تھا۔ آپ کو بتلایا گیا کہ آنے والوں میں ان کا بھانجا بھی ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، المناقب، حدیث: ۳۵۲۸)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2611
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2609
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2611
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت شعبہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ایاس معاویہ بن قرہ سے پوچھا: کیا تم نے حضرت انس بن مالک ؓ سے سنا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”کسی قوم کا بھانجا بھی اس قوم میں شامل ہے؟“ انھوں نے کہا: ہاں۔
حدیث حاشیہ:
امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ بنو ہاشم کا بھانجا بھی زکاۃ کا مستحق نہیں کیونکہ وہ بھی بنو ہاشم میں شامل ہے۔ اسی طرح اس روایت سے بعض حضرات نے بھانجے کی وراثت پر بھی استدلال کیا ہے، حالانکہ یہاں وراثت کی بحث ہی نہیں۔ آپ کا مطلب تو یہ ہے کہ بھانجے کا اپنے ماموؤں کے ساتھ قوی تعلق ہوتا ہے، لہٰذا اسے ان سے غیر متعلق نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ ارشاد آپ نے اس وقت فرمایا تھا جب آپ نے صرف انصار کو بلایا تھا۔ آپ کو بتلایا گیا کہ آنے والوں میں ان کا بھانجا بھی ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، المناقب، حدیث: ۳۵۲۸)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوایاس معاویہ بن قرہ سے پوچھا: کیا آپ نے انس بن مالک ؓ کو کہتے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”لوگوں کا بھانجا بھی انہیں میں سے ہوتا ہے“، انہوں نے کہا: جی ہاں (میں نے سنا ہے)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Shu’bah said: “I said to Abu Iyas Muawiyah bin Qurrah: ‘Did you hear Anas bin Malik (RA) say: The Messenger of Allah (ﷺ) said: The son of the daughter of a people is one of them? He said: ‘Yes.” (Sahih)