باب: جب صدقے کی حثیت بدل جائے(تو حکم بھی بدل جائے گا)
)
Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: When Charity Is Passed On)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2614.
حضرت عائشہؓ سے منقول ہے کہ میں نے ارادہ کیا کہ بریرہؓ کو خرید کر آزاد کر دوں لیکن اس کے مالکوں نے اس کے وَلَا کی شرط لگا لی۔ میں نے یہ بات رسول اللہﷺ سے ذکر کی تو آپ نے فرمایا: ’’خرید کر آزاد کر دے۔ وَلَا اسی کا حق ہے جو آزاد کرے۔‘‘ (اسی طرح) جب وہ آزاد ہوئی تو اسے (خاوند کے پاس رہنے یا نہ رہنے کا) اختیار دیا گیا۔ (اسی طرح) رسول اللہﷺ کے پاس گوشت لایا گیا اور بتایا گیا کہ یہ اس (گوشت) میں سے ہے جو بریرہؓ پر صدقہ کیا گیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’وہ اس کے لیے صدقہ ہے، ہمارے لیے ہدیہ (تحفہ) ہے۔‘‘ (یاد رہے کہ) حضرت بریرہؓ کا خاوند آزاد تھا۔
تشریح:
(۱) حضرت بریرہؓ کسی اور خاندان کی لونڈی تھیں۔ حضرت عائشہؓ کے پاس خدمت کے لیے آتی جاتی رہتی تھیں۔ انھوں نے اپنے مالکوں سے آزادی کا معاہدہ کیا کہ میں قسط وار اپنی قیمت خود ادا کر دوں گی، مجھے آزاد کر دو۔ وہ مان گئے۔ حضرت عائشہؓ کو پتہ چلا تو انھوں نے پیش کش کی کہ میں پوری قیمت دے کر ابھی خرید لیتی ہوں اور آزاد کر دیتی ہوں۔ مالک راضی ہوگئے مگر کہنے لگے: وَلَا کا حق ہمارا ہوگا، حالانکہ مولیٰ وہی ہوتا ہے جو آزاد کرے۔ حضرت عائشہؓ نے یہ مسئلہ رسول اللہﷺ کے سامنے پیش کیا تو اپ نے مذکورہ جواب ارشاد فرمایا۔ (۲) ’’وَلَا‘‘ سے مراد وہ حق ہے جو آزاد کرنے والے کو آزاد کردہ غلام پر ہوتا ہے، مثلاً: وہ اس کا مولیٰ کہلاتا ہے۔ اگر غلام فوت ہو جائے اور اس کا کوئی نسبی وارث نہ ہو تو مالک کو وراثت ملتی ہے، وغیرہ۔ (۳) اگر منکوحہ لونڈی آزاد ہو جائے تو آزادی کے بعد اسے اختیار ہوتا ہے کہ چاہے تو سابقہ خاوند سے نکاح قائم رکھے، چاہے تو نکاح فسخ کر دے۔ لیکن جمہور اہل علم کے نزدیک یہ اختیار تب ہے اگر اس کا خاوند غلام ہو۔ اگر وہ آزاد ہو تو عورت کو باوجود آزاد ہونے کے نکاح ختم کرنے کا اختیار نہیں۔ حضرت بریرہؓ کے خاوند غلام تھے، نام ان کا مغیث تھا۔ البتہ احناف کے نزدیک خاوند آزاد ہو یا غلام، آزاد ہونے والی کو نکاح ختم کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ (۴) ’’گوشت لایا گیا۔‘‘ یہ گوشت صدقے کا تھا۔ کسی نے حضرت بریرہؓ کو بھیجا تھا۔ انھوں نے کچھ گوشت بطور تحفہ حضرت عائشہؓ کے پاس بھیج دیا۔ ظاہر ہے گوشت جس کو صدقے میں دے دیا جائے اس کی ملک ہوگیا، اب وہ جسے صدقے کے طور پر دے، اس کے لیے صدقہ ہے۔ جسے تحفے کے طور پر دے، اس کے لیے تحفہ ہے۔ اسی لیے نبیﷺ نے وہ گوشت تناول فرمایا۔ (۵) ’’آزاد تھا۔‘‘ دوسری روایات میں صراحت ہے کہ یہ حضرت اسود کا قول ہے، نہ کہ حضرت عائشہؓ کا۔ اور اسود تابعی ہیں۔ دوسری روایات میں حضرت عائشہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم کا صریح فرمان ہے کہ بریرہ کا خاوند غلام تھا۔ (صحیح البخاری، الطلاق، حدیث: ۵۲۸۲، وصحیح مسلم، العتق، حدیث: ۱۵۰۴) اگر وہ غلام نہ ہوتا تو اسے اختیار نہ دیا جاتا کیونکہ عورت آزاد ہونے کے باوجود خاوند سے بلند رتبہ نہیں ہوتی۔ (۶) تفصیلی روایات میں صراحت ہے کہ حضرت بریرہؓ نے باوجود حضرت مغیث کی منت سماجت کے نکاح ختم کر دیا تھا۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، الطلاق، حدیث: ۲۵۸۳)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2615
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2613
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2615
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت عائشہؓ سے منقول ہے کہ میں نے ارادہ کیا کہ بریرہؓ کو خرید کر آزاد کر دوں لیکن اس کے مالکوں نے اس کے وَلَا کی شرط لگا لی۔ میں نے یہ بات رسول اللہﷺ سے ذکر کی تو آپ نے فرمایا: ’’خرید کر آزاد کر دے۔ وَلَا اسی کا حق ہے جو آزاد کرے۔‘‘ (اسی طرح) جب وہ آزاد ہوئی تو اسے (خاوند کے پاس رہنے یا نہ رہنے کا) اختیار دیا گیا۔ (اسی طرح) رسول اللہﷺ کے پاس گوشت لایا گیا اور بتایا گیا کہ یہ اس (گوشت) میں سے ہے جو بریرہؓ پر صدقہ کیا گیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’وہ اس کے لیے صدقہ ہے، ہمارے لیے ہدیہ (تحفہ) ہے۔‘‘ (یاد رہے کہ) حضرت بریرہؓ کا خاوند آزاد تھا۔
حدیث حاشیہ:
(۱) حضرت بریرہؓ کسی اور خاندان کی لونڈی تھیں۔ حضرت عائشہؓ کے پاس خدمت کے لیے آتی جاتی رہتی تھیں۔ انھوں نے اپنے مالکوں سے آزادی کا معاہدہ کیا کہ میں قسط وار اپنی قیمت خود ادا کر دوں گی، مجھے آزاد کر دو۔ وہ مان گئے۔ حضرت عائشہؓ کو پتہ چلا تو انھوں نے پیش کش کی کہ میں پوری قیمت دے کر ابھی خرید لیتی ہوں اور آزاد کر دیتی ہوں۔ مالک راضی ہوگئے مگر کہنے لگے: وَلَا کا حق ہمارا ہوگا، حالانکہ مولیٰ وہی ہوتا ہے جو آزاد کرے۔ حضرت عائشہؓ نے یہ مسئلہ رسول اللہﷺ کے سامنے پیش کیا تو اپ نے مذکورہ جواب ارشاد فرمایا۔ (۲) ’’وَلَا‘‘ سے مراد وہ حق ہے جو آزاد کرنے والے کو آزاد کردہ غلام پر ہوتا ہے، مثلاً: وہ اس کا مولیٰ کہلاتا ہے۔ اگر غلام فوت ہو جائے اور اس کا کوئی نسبی وارث نہ ہو تو مالک کو وراثت ملتی ہے، وغیرہ۔ (۳) اگر منکوحہ لونڈی آزاد ہو جائے تو آزادی کے بعد اسے اختیار ہوتا ہے کہ چاہے تو سابقہ خاوند سے نکاح قائم رکھے، چاہے تو نکاح فسخ کر دے۔ لیکن جمہور اہل علم کے نزدیک یہ اختیار تب ہے اگر اس کا خاوند غلام ہو۔ اگر وہ آزاد ہو تو عورت کو باوجود آزاد ہونے کے نکاح ختم کرنے کا اختیار نہیں۔ حضرت بریرہؓ کے خاوند غلام تھے، نام ان کا مغیث تھا۔ البتہ احناف کے نزدیک خاوند آزاد ہو یا غلام، آزاد ہونے والی کو نکاح ختم کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ (۴) ’’گوشت لایا گیا۔‘‘ یہ گوشت صدقے کا تھا۔ کسی نے حضرت بریرہؓ کو بھیجا تھا۔ انھوں نے کچھ گوشت بطور تحفہ حضرت عائشہؓ کے پاس بھیج دیا۔ ظاہر ہے گوشت جس کو صدقے میں دے دیا جائے اس کی ملک ہوگیا، اب وہ جسے صدقے کے طور پر دے، اس کے لیے صدقہ ہے۔ جسے تحفے کے طور پر دے، اس کے لیے تحفہ ہے۔ اسی لیے نبیﷺ نے وہ گوشت تناول فرمایا۔ (۵) ’’آزاد تھا۔‘‘ دوسری روایات میں صراحت ہے کہ یہ حضرت اسود کا قول ہے، نہ کہ حضرت عائشہؓ کا۔ اور اسود تابعی ہیں۔ دوسری روایات میں حضرت عائشہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم کا صریح فرمان ہے کہ بریرہ کا خاوند غلام تھا۔ (صحیح البخاری، الطلاق، حدیث: ۵۲۸۲، وصحیح مسلم، العتق، حدیث: ۱۵۰۴) اگر وہ غلام نہ ہوتا تو اسے اختیار نہ دیا جاتا کیونکہ عورت آزاد ہونے کے باوجود خاوند سے بلند رتبہ نہیں ہوتی۔ (۶) تفصیلی روایات میں صراحت ہے کہ حضرت بریرہؓ نے باوجود حضرت مغیث کی منت سماجت کے نکاح ختم کر دیا تھا۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، الطلاق، حدیث: ۲۵۸۳)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بریرہ ؓ کو خرید کر آزاد کر دینا چاہا ، لیکن ان کے مالکان نے ولاء ( ترکہ ) خود لینے کی شرط لگائی ۔ تو انہوں نے اس کا تذکرہ رسول اللہ ﷺ سے کیا ، تو آپ نے فرمایا : ” اسے خرید لو ، اور آزاد کر دو ، ولاء ( ترکہ ) اسی کا ہے جو آزاد کرے “ ، اور جس وقت وہ آزاد کر دی گئیں تو انہیں اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے شوہر کی زوجیت میں رہیں یا نہ رہیں ۔ ( اسی درمیان ) رسول اللہ ﷺ کے پاس گوشت لایا گیا ، کہا گیا کہ یہ ان چیزوں میں سے ہے جو بریرہ ؓ پر صدقہ کیا جاتا ہے ، تو آپ نے فرمایا : ” یہ اس کے لیے صدقہ ہے ، اور ہمارے لیے ہدیہ ہے “ ، ان کے شوہر آزاد تھے ۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Aishah (RA) that she wanted to buy Barirah and set her free, but they stipulated that her loyalty as a freed slave (Wala’) should be to them. She mentioned that to the Messenger of Allah (ﷺ) and he said: “Buy her and set her fee, and loyalty is due to the one who frees the slave.” She was given the choice when she was freed. Some meat was brought to the Messenger of Allah (ﷺ) and it was said: “This is something that is given in charity to Barirah.” He said: “It is charity for her and gift for us.” And her husband was a free man. (Sahih)