Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: The virtue of Hajj)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2627.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”جس نے اس گھر (بیت اللہ) کا حج کیا اور اس دوران میں کوئی شہوانی بات کی نہ فسق (کبیرہ گناہ کا ارتکاب) کیا، وہ (گناہوں سے) اس طرح (پاک صاف ہو کر) پلٹتا ہے جیسے اس دن تھا جب اسے اس کی ماں نے جنا تھا۔“
تشریح:
(1) گویا اس کے سب صغیرہ و کبیرہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں، البتہ حقوق العباد کا مسئلہ مختلف ہے کیونکہ ان کی معافی تو متعلقین ہی کی طرف سے ہو سکتی ہے لیکن اگر اللہ تعالیٰ متعلقہ شخص کو اپنی طرف سے دے کر راضی کر دے تو اللہ کی رحمت سے بعید نہیں اور نہ اس پر کوئی اعتراض ہی ہے۔ (2) فسق ویسے تو ہر حال میں منع ہے لیکن حج میں بطور خاص منع کیا گیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2628
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2626
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2628
تمہید کتاب
حج ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے۔ ان ارکان کے چھوڑنے سے کفر واسلام میں امتیاز ختم ہو جاتا ہے۔ حج کے لغوی معنی قصد کرنا ہیں مگر شریعت اسلامیہ میں اس سے مراد چند معین ایام میں مخصوص طریقے اور اعمال کے ساتھ بیت اللہ کی زیارت کرنا ہے۔ حج کا مقصد بیت اللہ کی تعظیم ہے جو کہ مسلمانوں کا مرکز اور ان کی وحدت کا ضامن ہے۔ اس کی طرف تمام مسلمان قبلہ رخ ہو کر نماز پڑھتے ہیں۔ حج میں مسلمانوں کا عظیم اجتماع ہوتا ہے۔ جس کی نظیر پیش کرنے سے تمام ادیان ومذاہب قاصر ہیں۔ اس سے مسلمانوں میں باہمی ربط وتعاون، آپس میں تعارف و الفت اور محبت و مودت کے جذبات ترقی پاتے ہیں۔ ہر علاقہ وملک کے لوگ، ہر رنگ ونسل سے تعلق رکھنے والے جن کی زبانیں مختلف ہوتی ہیں مگر دلی جذبات ایک سے ہوتے ہیں، ان کی بود وباش مختلف، مگر ان کی زبان پر ایک ہی ترانہ ہوتا ہے۔ حج کے ارکان کی ادائیگی کے وقت ان کا لباس بھی ایک ہی ہوتا ہے۔ نہ دنگا فساد، نہ لڑائی جھگڑا، نہ گالم گلوچ۔ حج زندگی میں ایک دفعہ فرض ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرضیت حج کے بعد ایک ہی حج ادا فرمایا تھا۔ حج کی ادائیگی میں حضرت ابراہیمؑ، ان کی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل ؑکی یاد تازہ ہوتی ہے جو سب سے پہلے اس عبادت کو ادا کرنے والے تھے۔ بیت اللہ بھی انھی دو عظیم شخصیات کا تعمیر کردہ ہے۔ حج کا اعلان بھی حضرت ابراہیم ؑ کی زبانی ہوا۔ حج خلوص، للہیت، قربانی، صبر اور مسلمانوں کی شان وشوکت کا عظيم مظہر ہے جس کی مثال ناپید ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”جس نے اس گھر (بیت اللہ) کا حج کیا اور اس دوران میں کوئی شہوانی بات کی نہ فسق (کبیرہ گناہ کا ارتکاب) کیا، وہ (گناہوں سے) اس طرح (پاک صاف ہو کر) پلٹتا ہے جیسے اس دن تھا جب اسے اس کی ماں نے جنا تھا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) گویا اس کے سب صغیرہ و کبیرہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں، البتہ حقوق العباد کا مسئلہ مختلف ہے کیونکہ ان کی معافی تو متعلقین ہی کی طرف سے ہو سکتی ہے لیکن اگر اللہ تعالیٰ متعلقہ شخص کو اپنی طرف سے دے کر راضی کر دے تو اللہ کی رحمت سے بعید نہیں اور نہ اس پر کوئی اعتراض ہی ہے۔ (2) فسق ویسے تو ہر حال میں منع ہے لیکن حج میں بطور خاص منع کیا گیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے اس گھر (یعنی خانہ کعبہ) کا حج کیا، نہ بیہودہ بکا۱؎ اور نہ ہی کوئی گناہ کیا، تو وہ اس طرح (پاک و صاف ہو کر)۲؎ لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : «رفث»: کے اصل معنیٰ ہیں جماع کرنا یہاں مراد فحش گوئی، بیہودگی، اور بیوی سے زبان سے جنسی خواہش کی آرزو کرنا ہے دوران حج چونکہ بیوی سے ہمبستری ممنوع ہے اس لیے اس موضوع پر بیوی سے گفتگو اور دل لگی کی بات بھی ناپسندیدہ ہے اور «فسق» سے نافرمانی اور لوگوں سے لڑائی جھگڑا کرنا مراد ہے۔ ۲؎ : یہ پاگیزگی صرف ان صغیرہ گناہوں سے ہوتی ہے جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہے ورنہ حقوق اللہ سے متعلق بڑے بڑے گناہ اور اسی طرح حقوق العباد سے متعلق کوتاہیاں خالص توبہ اور ادائیگی حقوق کے بغیر معاف نہیں ہوں گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Hurairah (RA) said: “The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘Whoever performs pilgrimage to this House, and does not Yarfuth (utter any obscenity or commit sin), will go back as (on the day) his mother bore him.” (Sahih)