Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: the virtue or Performing Hajj and 'Umrah Consecutively)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2630.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”پے در پے حج اور عمرہ کرتے رہو کیونکہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو اس طرح زائل کرتے ہیں جیسے آگ کی بھٹی لوہے کے زنگ اور میل کچیل کو دور کرتی ہے۔“
تشریح:
(1) ”پے در پے“ سے مراد یہ ہے کہ حج کے بعد عمرہ اور عمرے کے بعد حج، یعنی کبھی حج، کبھی عمرہ۔ (2) ”گناہوں کو زائل کرتے ہیں۔“ یعنی ان کا ثواب گناہوں کے اثرات ختم کرتا رہتا ہے۔ یا حج اور عمرے کی برکت سے انسان گناہوں کو چھوڑ دیتا ہے۔ جس قدر زیادہ حج اور عمرے ہوں گے اتنا ہی وہ گناہوں سے زیادہ دور ہوگا۔ (3) فقر دور ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان عبادات پر کافی رقم خرچ ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو شخص میرے راستے میں خرچ کرے گا، میں اسے زیادہ دوں گا۔ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کے لیے رزق کے معنوی دروازے کھول دے گا۔ ممکن ہے فقر سے مراد فقر قلب ہو، یعنی حج اور عمرہ پے در پے کرنے سے دل سخی بن جائے گا، دل میں بخل نہیں رہے گا۔ واللہ أعلم
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في " السلسلة الصحيحة " 3 / 196 :
ورد من حديث عبد الله بن عباس و عبد الله بن مسعود و عبد الله بن عمر و عمر
ابن الخطاب و جابر بن عبد الله .
1 - أما حديث ابن عباس فيرويه سهل بن حماد أبو عتاب الدلال أخبرنا عزرة بن ثابت
عن عمرو بن دينار قال : قال ابن عباس : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :
فذكره . رواه النسائي ( 2 / 4 ) و عنه الطبراني في " المعجم الكبير " ( 3 / 113
/ 1 ) و عنه الضياء المقدسي في " الأحاديث المختارة " ( 67 / 99 / 2 ) .
قلت : و هذا إسناد صحيح على شرط مسلم . و خالفه حجاج بن نصير فقال : أخبرنا
ورقاء عن عمرو بن دينار عن ابن عمرو به . أخرجه الطبراني ( 3 / 210 / 1 ) .
لكن حجاج بن نصير ضعيف ، فلا يعتد بمخالفته لكن يأتي من طريقين آخرين عن ابن
عمر . و تابعه عطاء عن ابن عباس به . أخرجه العقيلي ( 464 ) عن يحيى بن صالح
الأيلي عن إسماعيل بن أمية عنه . و كذلك أخرجه الطبراني ( 3 / 21 / 1 ) و عنه
الضياء ( 63 / 14 / 1 ) لكنه قال : " ابن جريج " مكان إسماعيل بن أمية " .
و الأيلي هذا له مناكير . و له متابعان آخران ذكرتهما تحت الحديث المتقدم بلفظ
: " أديموا الحج " ( 1185 ) .
2 - و أما حديث ابن مسعود فيرويه عاصم عن شقيق عنه مرفوعا به و زاد : " و الذهب
و الفضة و ليس للحج المبرور ثواب إلا الجنة " . أخرجه الترمذي ( 1 / 155 )
و النسائي و أحمد ( 1 / 387 ) و عنه ابن حبان ( 967 ) و الطبري في " التفسير "
( ج 4 رقم 3956 ) و الطبراني ( 3 / 76 / 2 ) و العقيلي ( ص 157 ) و أبو نعيم في
" الحلية " ( 4 / 110 ) و البغوي في " شرح السنة " ( 2 / 112 / 1 ) و قال هو
و الترمذي : " حديث حسن صحيح غريب " .
قلت : و إسناده حسن ، فإن عاصما و هو ابن بهدلة أبي النجود و في حفظه بعض الضعف
و عنه رواه ابن خزيمة في " صحيحه " أيضا ( 1 / 253 / 1 ) .
3 - و أما حديث ابن عمر فله عنه ثلاثة طرق :
الأولى : عن عمرو بن دينار عنه . و في إسناده حجاج بن نصير الضعيف كما تقدم
قريبا .
الثانية : عن سلمة بن عبد الملك العوصي عن إبراهيم بن يزيد عن عبدة بن أبي
لبابة قال : سمعت ابن عمر يقول : فذكره . أخرجه أبو سعيد بن الأعرابي في
" معجمه " ( ق 14 / 2 ) و ابن عساكر ( 2 / 285 / 2 ) . و هذا إسناد ضعيف جدا ،
إبراهيم هذا هو الخوزي متروك . و أما العوصي فصدوق يخالف كما في " التقريب " .
الثالثة : عن عثمان بن سعيد الصيداوي حدثنا سليمان بن صلح حدثني ابن ثوبان عن
منصور بن المعتمر عن الشعبي عن ابن عمر مرفوعا به إلا أنه قال : " فإن متابعة
ما بينهما يزيد في العمر و الرزق " . أخرجه تمام الرازي في " الفوائد " ( ج 1
رقم 31 ) . و عزاه المنذري في " الترغيب " ( 2 / 107 ) للبيهقي .
قلت : و عثمان و سليمان لم أجد من ترجمهما .
4 - و أما حديث عمر فيرويه عاصم بن عبيد الله عن عبد الله بن عامر بن ربيعة
العدوي عن أبيه عنه . أخرجه ابن ماجه ( 2 / 108 - الطبعة العلمية ) و أحمد ( 1
/ 25 ) و الحميدي في " مسنده " ( 17 ) و الطبري في " التفسير " ( ج 4 / 223 /
3958 ) و المحاملي في " الأمالي " ( ج 4 رقم 33 ) و ابن عساكر في " تاريخ دمشق
" ( 8 / 323 / 2 ) .
قلت : و عاصم بن عبيد الله ضعيف .
5 - و أما حديث جابر فله عنه ثلاث طرق :
الأولى : عن بشر بن المنذر حدثنا محمد بن مسلم عن عمرو بن ( دينار عنه ) .
أخرجه البزار ( 112 ) و قال : " لا نعلمه عن جابر إلا بهذا الإسناد " . كذا قال
و خفي عليه الطريقان الآخران ، و قد خرجتهما فيما سبقت الإشارة إليه . و الحديث
قال الهيثمي في " المجمع " ( 3 / 277 ) : " رواه البزار و رجاله رجال الصحيح
خلا بشر بن المنذر ففي حديثه وهم ، قاله العقيلي ، و وثقه ابن حبان " .
قلت : لكن محمد بن مسلم و الطائفي و إن كان من رجال مسلم فقد قال الحافظ فيه :
" صدوق يخطىء " .
6 - و أما حديث عامر بن ربيعة فيرويه عاصم بن عبيد الله عن عبد الله بن عامر بن
ربيعة عن أبيه مرفوعا به نحوه و زاد في رواية : " و الحج المبرور ليس له جزاء
إلا الجنة " . أخرجه أحمد ( 3 / 446 و 447 ) . و عاصم بن عبيد الله ضعيف كما
تقدم و كأنه اضطرب فيه ، فكان تارة يرويه عبد الله بن عامر بن ربيعة عن أبيه
كما في هذه الرواية ، و تارة عنه عن أبيه عن عمر كما سبق ( رقم 4 ) . و الزيادة
المذكورة صحيحة يشهد لها حديث ابن مسعود السابق و كذا حديث أبي هريرة في
" الصحيحين " و غيرهما .
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2631
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2629
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2631
تمہید کتاب
حج ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے۔ ان ارکان کے چھوڑنے سے کفر واسلام میں امتیاز ختم ہو جاتا ہے۔ حج کے لغوی معنی قصد کرنا ہیں مگر شریعت اسلامیہ میں اس سے مراد چند معین ایام میں مخصوص طریقے اور اعمال کے ساتھ بیت اللہ کی زیارت کرنا ہے۔ حج کا مقصد بیت اللہ کی تعظیم ہے جو کہ مسلمانوں کا مرکز اور ان کی وحدت کا ضامن ہے۔ اس کی طرف تمام مسلمان قبلہ رخ ہو کر نماز پڑھتے ہیں۔ حج میں مسلمانوں کا عظیم اجتماع ہوتا ہے۔ جس کی نظیر پیش کرنے سے تمام ادیان ومذاہب قاصر ہیں۔ اس سے مسلمانوں میں باہمی ربط وتعاون، آپس میں تعارف و الفت اور محبت و مودت کے جذبات ترقی پاتے ہیں۔ ہر علاقہ وملک کے لوگ، ہر رنگ ونسل سے تعلق رکھنے والے جن کی زبانیں مختلف ہوتی ہیں مگر دلی جذبات ایک سے ہوتے ہیں، ان کی بود وباش مختلف، مگر ان کی زبان پر ایک ہی ترانہ ہوتا ہے۔ حج کے ارکان کی ادائیگی کے وقت ان کا لباس بھی ایک ہی ہوتا ہے۔ نہ دنگا فساد، نہ لڑائی جھگڑا، نہ گالم گلوچ۔ حج زندگی میں ایک دفعہ فرض ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرضیت حج کے بعد ایک ہی حج ادا فرمایا تھا۔ حج کی ادائیگی میں حضرت ابراہیمؑ، ان کی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل ؑکی یاد تازہ ہوتی ہے جو سب سے پہلے اس عبادت کو ادا کرنے والے تھے۔ بیت اللہ بھی انھی دو عظیم شخصیات کا تعمیر کردہ ہے۔ حج کا اعلان بھی حضرت ابراہیم ؑ کی زبانی ہوا۔ حج خلوص، للہیت، قربانی، صبر اور مسلمانوں کی شان وشوکت کا عظيم مظہر ہے جس کی مثال ناپید ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”پے در پے حج اور عمرہ کرتے رہو کیونکہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو اس طرح زائل کرتے ہیں جیسے آگ کی بھٹی لوہے کے زنگ اور میل کچیل کو دور کرتی ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”پے در پے“ سے مراد یہ ہے کہ حج کے بعد عمرہ اور عمرے کے بعد حج، یعنی کبھی حج، کبھی عمرہ۔ (2) ”گناہوں کو زائل کرتے ہیں۔“ یعنی ان کا ثواب گناہوں کے اثرات ختم کرتا رہتا ہے۔ یا حج اور عمرے کی برکت سے انسان گناہوں کو چھوڑ دیتا ہے۔ جس قدر زیادہ حج اور عمرے ہوں گے اتنا ہی وہ گناہوں سے زیادہ دور ہوگا۔ (3) فقر دور ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان عبادات پر کافی رقم خرچ ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو شخص میرے راستے میں خرچ کرے گا، میں اسے زیادہ دوں گا۔ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کے لیے رزق کے معنوی دروازے کھول دے گا۔ ممکن ہے فقر سے مراد فقر قلب ہو، یعنی حج اور عمرہ پے در پے کرنے سے دل سخی بن جائے گا، دل میں بخل نہیں رہے گا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”حج و عمرہ ایک ساتھ کرو، کیونکہ یہ دونوں فقر اور گناہ کو اسی طرح دور کرتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے کی میل کو دور کر دیتی ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn ‘Abbas said: “The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘Perform Hajj and ‘Umrah consecutively; for they remove poverty and sin as the bellows removes impurity from iron.” (Hasan)