باب: اس فوت شدہ کی طرف سے حج کرنا جس نے حج کی نذر مانی ہو(مگر پوری نہ کر سکے
)
Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: Hajj On Behalf Of A Deceased Person Who Vowed To Perform Hajj)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2632.
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ ایک عورت نے حج کی نذر مانی تھی لیکن وہ (حج کے بغیر) فوت ہوگئی۔ اس کا بھائی نبیﷺ کے پاس حاضر ہوا اور اس بارے میں پوچھنے لگا۔ آپ نے فرمایا: ”تیرا کیا خیال ہے کہ اگر تیری بہن کے ذمے قرض ہوتا تو کیا تو اسے ادا کرتا؟“ اس نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ کا قرض بھی ادا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ زیادہ حق رکھتا ہے کہ اس کا قرض ادا کیا جائے۔“
تشریح:
(1) معلوم ہوا حقوق اللہ کی ادائیگی کا درجہ حقوق العباد کی ادائیگی سے اہم اور بلند ہے اگرچہ حقوق العباد کی معافی مشکل ہے۔ (2) میت کے ذمے حج واجب ہو (خواہ شرعاً یا نذراً) اور وہ زندگی میں ادا نہ کر سکا ہو تو اس کے مال سے اس کی طرف سے حج کروایا جائے۔ اسی طرح کفارہ، زکاۃ اور قرض بھی ادا کیا جائے گا، خواہ میت کا سارا مال ہی صرف ہو جائے۔ ثلث کا لحاظ نہیں رکھا جائے گا کیونکہ ان کی حیثیت محض وصیت کی سی نہیں۔ (3) اس روایت سے قیاس کے جواز پر استدلال کیا گیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ نبیﷺ کو تو قیاس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ وحی جاری تھی، نیز قیاس تو غیر منصوص چیز میں ہوتا ہے۔ آپ کا فرمان تو خود نص ہے۔ قیاس تو امتی کر سکتا ہے جس کے پاس نص (اللہ اور اس کے رسول کا صریح فرمان) نہ ہو۔ (4) آدمی حج کی نذر مان سکتا ہے اگرچہ اس نے فرض حج نہ کیا ہو، پھر جب وہ حج کرے گا تو اس کا فرض حج ادا ہو جائے گا۔ بعد میں نذر کا حج کرے گا۔ یہ رائے جمہور کی ہے۔ ایک رائے اس کے برعکس بھی ہے، یعنی اس کا پہلا حج نذر کا شمار ہوگا اور دوسرا فرض اور ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس کا حج دونوں سے کفایت کر جائے گا، لیکن یہ رائے درست معلوم نہیں ہوتی۔ (5) یہ حدیث جمہور اہل علم کی دلیل ہے کہ اگر آدمی عمداً نماز ترک کر دیتا ہے تو اس پر اس کی قضا ضروری ہے کیونکہ یہ اس پر اللہ کا قرض ہے۔ (6) عالم اور مفتی کو مسئلہ سمجھانے کا ایسا انداز اپنانا چاہیے کہ سائل کو پوری طرح سمجھ میں آجائے اور اسے کسی قسم کی تشنگی باقی نہ رہے اور وہ بالکل مطمئن ہو جائے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2633
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2631
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2633
تمہید کتاب
حج ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے۔ ان ارکان کے چھوڑنے سے کفر واسلام میں امتیاز ختم ہو جاتا ہے۔ حج کے لغوی معنی قصد کرنا ہیں مگر شریعت اسلامیہ میں اس سے مراد چند معین ایام میں مخصوص طریقے اور اعمال کے ساتھ بیت اللہ کی زیارت کرنا ہے۔ حج کا مقصد بیت اللہ کی تعظیم ہے جو کہ مسلمانوں کا مرکز اور ان کی وحدت کا ضامن ہے۔ اس کی طرف تمام مسلمان قبلہ رخ ہو کر نماز پڑھتے ہیں۔ حج میں مسلمانوں کا عظیم اجتماع ہوتا ہے۔ جس کی نظیر پیش کرنے سے تمام ادیان ومذاہب قاصر ہیں۔ اس سے مسلمانوں میں باہمی ربط وتعاون، آپس میں تعارف و الفت اور محبت و مودت کے جذبات ترقی پاتے ہیں۔ ہر علاقہ وملک کے لوگ، ہر رنگ ونسل سے تعلق رکھنے والے جن کی زبانیں مختلف ہوتی ہیں مگر دلی جذبات ایک سے ہوتے ہیں، ان کی بود وباش مختلف، مگر ان کی زبان پر ایک ہی ترانہ ہوتا ہے۔ حج کے ارکان کی ادائیگی کے وقت ان کا لباس بھی ایک ہی ہوتا ہے۔ نہ دنگا فساد، نہ لڑائی جھگڑا، نہ گالم گلوچ۔ حج زندگی میں ایک دفعہ فرض ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرضیت حج کے بعد ایک ہی حج ادا فرمایا تھا۔ حج کی ادائیگی میں حضرت ابراہیمؑ، ان کی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل ؑکی یاد تازہ ہوتی ہے جو سب سے پہلے اس عبادت کو ادا کرنے والے تھے۔ بیت اللہ بھی انھی دو عظیم شخصیات کا تعمیر کردہ ہے۔ حج کا اعلان بھی حضرت ابراہیم ؑ کی زبانی ہوا۔ حج خلوص، للہیت، قربانی، صبر اور مسلمانوں کی شان وشوکت کا عظيم مظہر ہے جس کی مثال ناپید ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ ایک عورت نے حج کی نذر مانی تھی لیکن وہ (حج کے بغیر) فوت ہوگئی۔ اس کا بھائی نبیﷺ کے پاس حاضر ہوا اور اس بارے میں پوچھنے لگا۔ آپ نے فرمایا: ”تیرا کیا خیال ہے کہ اگر تیری بہن کے ذمے قرض ہوتا تو کیا تو اسے ادا کرتا؟“ اس نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ کا قرض بھی ادا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ زیادہ حق رکھتا ہے کہ اس کا قرض ادا کیا جائے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) معلوم ہوا حقوق اللہ کی ادائیگی کا درجہ حقوق العباد کی ادائیگی سے اہم اور بلند ہے اگرچہ حقوق العباد کی معافی مشکل ہے۔ (2) میت کے ذمے حج واجب ہو (خواہ شرعاً یا نذراً) اور وہ زندگی میں ادا نہ کر سکا ہو تو اس کے مال سے اس کی طرف سے حج کروایا جائے۔ اسی طرح کفارہ، زکاۃ اور قرض بھی ادا کیا جائے گا، خواہ میت کا سارا مال ہی صرف ہو جائے۔ ثلث کا لحاظ نہیں رکھا جائے گا کیونکہ ان کی حیثیت محض وصیت کی سی نہیں۔ (3) اس روایت سے قیاس کے جواز پر استدلال کیا گیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ نبیﷺ کو تو قیاس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ وحی جاری تھی، نیز قیاس تو غیر منصوص چیز میں ہوتا ہے۔ آپ کا فرمان تو خود نص ہے۔ قیاس تو امتی کر سکتا ہے جس کے پاس نص (اللہ اور اس کے رسول کا صریح فرمان) نہ ہو۔ (4) آدمی حج کی نذر مان سکتا ہے اگرچہ اس نے فرض حج نہ کیا ہو، پھر جب وہ حج کرے گا تو اس کا فرض حج ادا ہو جائے گا۔ بعد میں نذر کا حج کرے گا۔ یہ رائے جمہور کی ہے۔ ایک رائے اس کے برعکس بھی ہے، یعنی اس کا پہلا حج نذر کا شمار ہوگا اور دوسرا فرض اور ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس کا حج دونوں سے کفایت کر جائے گا، لیکن یہ رائے درست معلوم نہیں ہوتی۔ (5) یہ حدیث جمہور اہل علم کی دلیل ہے کہ اگر آدمی عمداً نماز ترک کر دیتا ہے تو اس پر اس کی قضا ضروری ہے کیونکہ یہ اس پر اللہ کا قرض ہے۔ (6) عالم اور مفتی کو مسئلہ سمجھانے کا ایسا انداز اپنانا چاہیے کہ سائل کو پوری طرح سمجھ میں آجائے اور اسے کسی قسم کی تشنگی باقی نہ رہے اور وہ بالکل مطمئن ہو جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے حج کی نذر مانی، پھر (حج کئے بغیر) مر گئی، اس کا بھائی نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور آپ سے اس بارے میں مسئلہ پوچھا تو آپ فرمایا: ”بتاؤ اگر تمہاری بہن پر قرض ہوتا تو کیا تم ادا کرتے؟“ اس نے کہا: ہاں میں ادا کرتا، آپ نے فرمایا: ”تو اللہ کا قرض ادا کرو وہ تو اور بھی ادائیگی کا زیادہ مستحق ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn ‘Abbas that a woman vowed to perform Hajj but she died. Her brother came to the Prophet (ﷺ) and asked him about that, he said: ‘Do you think that if your sister owed a debt you would pay it off?’ He said: ‘Yes.’ He said: ‘Then fulfill the right of Allah, for He is more deserving that His rights should be fulfilled.” (Sahih)