باب: جس میت نے(فرض) حج نہ کیا ہو اس کی طرف سے حج کرنا
)
Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: Hajj On Behalf Of A Deceased Person Who did Not Perform Hajj)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2633.
حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نے حضرت سنان بن سلمہ جہنی ؓ سے کہا: رسول اللہﷺ سے پوچھیں کہ اس کی ماں (فرض) حج کیے بغیر فوت ہوگئی ہے۔ اگر وہ عورت اپنی ماں کی طرف سے حج کر لے تو وہ اسے کفایت کر جائے گا؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں۔ اگر اس کی ماں کے ذمے قرض ہوتا اور وہ عورت اس کی طرف سے ادا کر دیتی تو کیا اسے کفایت نہ کرتا؟ اسے چاہیے کہ وہ اپنی ماں کی طرف سے حج کرے۔“
تشریح:
قرض کی مثال مسئلہ سمجھانے کے لیے ذکر فرمائی نہ یہ کہ حج کو قرض پر قیاس فرمایا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2634
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2632
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2634
تمہید کتاب
حج ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے۔ ان ارکان کے چھوڑنے سے کفر واسلام میں امتیاز ختم ہو جاتا ہے۔ حج کے لغوی معنی قصد کرنا ہیں مگر شریعت اسلامیہ میں اس سے مراد چند معین ایام میں مخصوص طریقے اور اعمال کے ساتھ بیت اللہ کی زیارت کرنا ہے۔ حج کا مقصد بیت اللہ کی تعظیم ہے جو کہ مسلمانوں کا مرکز اور ان کی وحدت کا ضامن ہے۔ اس کی طرف تمام مسلمان قبلہ رخ ہو کر نماز پڑھتے ہیں۔ حج میں مسلمانوں کا عظیم اجتماع ہوتا ہے۔ جس کی نظیر پیش کرنے سے تمام ادیان ومذاہب قاصر ہیں۔ اس سے مسلمانوں میں باہمی ربط وتعاون، آپس میں تعارف و الفت اور محبت و مودت کے جذبات ترقی پاتے ہیں۔ ہر علاقہ وملک کے لوگ، ہر رنگ ونسل سے تعلق رکھنے والے جن کی زبانیں مختلف ہوتی ہیں مگر دلی جذبات ایک سے ہوتے ہیں، ان کی بود وباش مختلف، مگر ان کی زبان پر ایک ہی ترانہ ہوتا ہے۔ حج کے ارکان کی ادائیگی کے وقت ان کا لباس بھی ایک ہی ہوتا ہے۔ نہ دنگا فساد، نہ لڑائی جھگڑا، نہ گالم گلوچ۔ حج زندگی میں ایک دفعہ فرض ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرضیت حج کے بعد ایک ہی حج ادا فرمایا تھا۔ حج کی ادائیگی میں حضرت ابراہیمؑ، ان کی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل ؑکی یاد تازہ ہوتی ہے جو سب سے پہلے اس عبادت کو ادا کرنے والے تھے۔ بیت اللہ بھی انھی دو عظیم شخصیات کا تعمیر کردہ ہے۔ حج کا اعلان بھی حضرت ابراہیم ؑ کی زبانی ہوا۔ حج خلوص، للہیت، قربانی، صبر اور مسلمانوں کی شان وشوکت کا عظيم مظہر ہے جس کی مثال ناپید ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نے حضرت سنان بن سلمہ جہنی ؓ سے کہا: رسول اللہﷺ سے پوچھیں کہ اس کی ماں (فرض) حج کیے بغیر فوت ہوگئی ہے۔ اگر وہ عورت اپنی ماں کی طرف سے حج کر لے تو وہ اسے کفایت کر جائے گا؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں۔ اگر اس کی ماں کے ذمے قرض ہوتا اور وہ عورت اس کی طرف سے ادا کر دیتی تو کیا اسے کفایت نہ کرتا؟ اسے چاہیے کہ وہ اپنی ماں کی طرف سے حج کرے۔“
حدیث حاشیہ:
قرض کی مثال مسئلہ سمجھانے کے لیے ذکر فرمائی نہ یہ کہ حج کو قرض پر قیاس فرمایا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک عورت نے سنان بن سلمہ جہنی ؓ سے کہا کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھیں کہ میری ماں مر گئی ہے اور اس نے حج نہیں کیا ہے تو کیا میں اس کی طرف سے حج کروں تو اسے کافی ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، اگر اس کی ماں پر قرض ہوتا اور وہ اس کی جانب سے ادا کرتی تو کیا یہ اس کی طرف سے کافی نہ ہو جاتا؟ لہٰذا اسے اپنی ماں کی طرف سے حج کرنا چاہیئے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn ‘Abbas said: “The wife of Sinan bin Salamah Al-Juhani ordered that the question be put to the Messenger of Allah (ﷺ) about her mother who had died and had not performed Hajj; would it be good enough if she were to perform Hajj on behalf of her mother? He said: ‘Yes. If her mother owed a debt and she paid it off, would that not be good enough? Let her perform Hajj on behalf of her mother.” (Sahih)