باب: زندہ شخص سواری پر نہ بیٹھ سکتا ہو تو اس کی طرف سے حج کیا جا سکتا ہے
)
Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: Hajj On Behalf Of A Living Person Who Cannot Sit Firm In The Saddle)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2635.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ بنو خثعم (قبیلے) کی ایک عورت نے مزدلفہ کی صبح رسول اللہﷺ سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں پر فرض کیے گئے حج نے میرے والد کو اس حال میں پایا ہے کہ وہ انتہائی بوڑھے ہیں، سواری پر بھی نہیں بیٹھ سکتے، تو کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں۔“
تشریح:
(1) مزدلفہ کی صبح، یعنی جس صبح حاجی مزدلفہ سے منیٰ روانہ ہوتے ہیں۔ گویا ۱۰ ذی الحجہ۔ یہ حجۃ الوداع کی بات ہے۔ (2) ”سواری پر نہیں بیٹھ سکتے۔“ معلوم ہوا کہ وجوب حج کے لیے جسمانی قوت شرط نہیں بلکہ مالی استطاعت (یعنی آنے جانے اور کھانے پینے کا خرچ) کافی ہے ورنہ آپ فرما دیتے کہ تیرے باپ پر حج واجب ہی نہیں۔ مالی استطاعت ہونے کی صورت میں خود حج کرے۔ اگر جسمانی قوت نہ ہو تو کسی سے کروائے۔ (3) ”فرمایا: ہاں۔“ یعنی اگلے سال یا اس سے بعد کیونکہ یہ حج تو وہ اپنی طرف سے کر رہی تھی بلکہ کر چکی تھی کیونکہ یہ وقوف عرفہ سے بعد کی بات ہے اور وقوف عرفہ ہی حاصل حج ہے۔ (4) جمہور اہل علم کے نزدیک حج بدل (جو کسی کی طرف سے کیا جائے) صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو اپنا حج پہلے کر چکا ہو۔ ابوداؤد کی ایک روایت میں آپ نے صراحتاً ایک شخص کو اپنا حج کرنے سے پہلے شبرمہ نامی شخص کی طرف سے حج کرنے سے روک دیا تھا۔ (5) مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے کی طرف سے حج بدل کر سکتے ہیں اگرچہ مرد، عورت کے احکام میں کچھ فرق ہے مگر وہ فرق احرام وغیرہ میں ہے۔ افعال حج ایک جیسے ہی ہیں۔ (6) عورت کی آواز پردہ نہیں ہے۔ تعلیم و تعلم، استفادہ وافتا اور اس قسم کی دیگر ضروریات کے مواقع پر اجنبی عورت کی آواز سننے میں کوئی حرج نہیں لیکن عورت کو چاہیے اجنبی سے بات کرتے وقت اس طرح نرم لہجہ اختیار نہ کرے جس سے فتنے کا اندیشہ ہو۔ (7) والدین کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرنا چاہیے اور ان سے حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے۔ اگر ان کی وفات کے بعد ان پر کوئی حج یا قرض وغیرہ کا فریضہ ہو جسے وہ کسی عذر کی بنا پر ادا نہ کر سکے ہوں تو اولاد کو چاہیے کہ ان کی طرف سے وہ فریضہ انجام دیں۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2636
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2634
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2636
تمہید کتاب
حج ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے۔ ان ارکان کے چھوڑنے سے کفر واسلام میں امتیاز ختم ہو جاتا ہے۔ حج کے لغوی معنی قصد کرنا ہیں مگر شریعت اسلامیہ میں اس سے مراد چند معین ایام میں مخصوص طریقے اور اعمال کے ساتھ بیت اللہ کی زیارت کرنا ہے۔ حج کا مقصد بیت اللہ کی تعظیم ہے جو کہ مسلمانوں کا مرکز اور ان کی وحدت کا ضامن ہے۔ اس کی طرف تمام مسلمان قبلہ رخ ہو کر نماز پڑھتے ہیں۔ حج میں مسلمانوں کا عظیم اجتماع ہوتا ہے۔ جس کی نظیر پیش کرنے سے تمام ادیان ومذاہب قاصر ہیں۔ اس سے مسلمانوں میں باہمی ربط وتعاون، آپس میں تعارف و الفت اور محبت و مودت کے جذبات ترقی پاتے ہیں۔ ہر علاقہ وملک کے لوگ، ہر رنگ ونسل سے تعلق رکھنے والے جن کی زبانیں مختلف ہوتی ہیں مگر دلی جذبات ایک سے ہوتے ہیں، ان کی بود وباش مختلف، مگر ان کی زبان پر ایک ہی ترانہ ہوتا ہے۔ حج کے ارکان کی ادائیگی کے وقت ان کا لباس بھی ایک ہی ہوتا ہے۔ نہ دنگا فساد، نہ لڑائی جھگڑا، نہ گالم گلوچ۔ حج زندگی میں ایک دفعہ فرض ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرضیت حج کے بعد ایک ہی حج ادا فرمایا تھا۔ حج کی ادائیگی میں حضرت ابراہیمؑ، ان کی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل ؑکی یاد تازہ ہوتی ہے جو سب سے پہلے اس عبادت کو ادا کرنے والے تھے۔ بیت اللہ بھی انھی دو عظیم شخصیات کا تعمیر کردہ ہے۔ حج کا اعلان بھی حضرت ابراہیم ؑ کی زبانی ہوا۔ حج خلوص، للہیت، قربانی، صبر اور مسلمانوں کی شان وشوکت کا عظيم مظہر ہے جس کی مثال ناپید ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ بنو خثعم (قبیلے) کی ایک عورت نے مزدلفہ کی صبح رسول اللہﷺ سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں پر فرض کیے گئے حج نے میرے والد کو اس حال میں پایا ہے کہ وہ انتہائی بوڑھے ہیں، سواری پر بھی نہیں بیٹھ سکتے، تو کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) مزدلفہ کی صبح، یعنی جس صبح حاجی مزدلفہ سے منیٰ روانہ ہوتے ہیں۔ گویا ۱۰ ذی الحجہ۔ یہ حجۃ الوداع کی بات ہے۔ (2) ”سواری پر نہیں بیٹھ سکتے۔“ معلوم ہوا کہ وجوب حج کے لیے جسمانی قوت شرط نہیں بلکہ مالی استطاعت (یعنی آنے جانے اور کھانے پینے کا خرچ) کافی ہے ورنہ آپ فرما دیتے کہ تیرے باپ پر حج واجب ہی نہیں۔ مالی استطاعت ہونے کی صورت میں خود حج کرے۔ اگر جسمانی قوت نہ ہو تو کسی سے کروائے۔ (3) ”فرمایا: ہاں۔“ یعنی اگلے سال یا اس سے بعد کیونکہ یہ حج تو وہ اپنی طرف سے کر رہی تھی بلکہ کر چکی تھی کیونکہ یہ وقوف عرفہ سے بعد کی بات ہے اور وقوف عرفہ ہی حاصل حج ہے۔ (4) جمہور اہل علم کے نزدیک حج بدل (جو کسی کی طرف سے کیا جائے) صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو اپنا حج پہلے کر چکا ہو۔ ابوداؤد کی ایک روایت میں آپ نے صراحتاً ایک شخص کو اپنا حج کرنے سے پہلے شبرمہ نامی شخص کی طرف سے حج کرنے سے روک دیا تھا۔ (5) مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے کی طرف سے حج بدل کر سکتے ہیں اگرچہ مرد، عورت کے احکام میں کچھ فرق ہے مگر وہ فرق احرام وغیرہ میں ہے۔ افعال حج ایک جیسے ہی ہیں۔ (6) عورت کی آواز پردہ نہیں ہے۔ تعلیم و تعلم، استفادہ وافتا اور اس قسم کی دیگر ضروریات کے مواقع پر اجنبی عورت کی آواز سننے میں کوئی حرج نہیں لیکن عورت کو چاہیے اجنبی سے بات کرتے وقت اس طرح نرم لہجہ اختیار نہ کرے جس سے فتنے کا اندیشہ ہو۔ (7) والدین کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرنا چاہیے اور ان سے حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے۔ اگر ان کی وفات کے بعد ان پر کوئی حج یا قرض وغیرہ کا فریضہ ہو جسے وہ کسی عذر کی بنا پر ادا نہ کر سکے ہوں تو اولاد کو چاہیے کہ ان کی طرف سے وہ فریضہ انجام دیں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے مزدلفہ (یعنی دسویں ذی الحجہ) کی صبح کی کو رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: اللہ کے رسول! حج کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر جو فریضہ عائد کیا ہے اس نے میرے والد کو اس حال میں پایا کہ وہ بہت بوڑھے ہیں، سواری پر ٹک نہیں سکتے، کیا میں ان کی طرف سے حج کر لوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں (کر لو)۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn ‘Abbas that a woman from Khath’am asked the Prophet (ﷺ) on the morning of the Day of Sacrifice: “Messenger of Allah (ﷺ)! The command of Allah to His slaves to perform Hajj has come, while my father is an old man and cannot sit firmly in the saddle. Can I perform Hajj on his behalf?” He said: “Yes.” (Sahih)