باب: احرام میں ورس اور زعفران سے رنگے ہوئے کپڑے پہننے کی ممانعت
)
Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: The Prohibition of Wearing Clothes Dyed with wars and Saffron when in Ihram)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2667.
حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا: محرم کون سے کپڑے پہن سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”وہ قمیص، برانڈی (ٹوپی دار کرتا)، شلوار، پگڑی، ایسا کپڑا جسے ورس یا زعفران لگا ہو اور موزے نہیں پہن سکتا مگر یہ کہ اس کے پاس جوتے نہ ہوں تو وہ موزے پہن لے مگر انھیں ٹخنوں سے نیچے کاٹ (کر جوتوں کی طرح بنا) لے۔“
تشریح:
(1) محرم کے لیے ضابطہ یہ ہے کہ سر نہ ڈھانپے اور سلا ہوا کپڑا نہ پہنے، خوشبو والا کپڑا بھی نہ پہنے۔ باقی کپڑے پہن سکتا ہے۔ (2) ”برانڈی“ وہ کوٹ یا کرتا جس کے ساتھ ٹوپی بھی ہوتی ہے۔ (3) ”موزے“ یعنی چمڑے کے موزے۔ صحیح قول کے مطابق موزوں کا پہننا جائز ہے، خواہ وہ کٹے ہوئے نہ بھی ہوں۔ دراصل احرام کی حالت میں موزے پہننے کی بابت دو قسم کی روایات آتی ہیں: ایک یہ کہ انھیں کاٹ کر پہنا جائے اور دوسری یہ کہ موزوں کو ان کی اصل حالت میں پہنا جائے، البتہ جس حدیث میں موزے کاٹنے کا حکم ہے وہ ابتدائے احرام کا ہے جبکہ دوسرا حکم عرفے کے دن کا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کاٹنے کا حکم منسوخ ہے۔ واللہ أعلم! دیکھیے: (صحیح البخاري، جزاء الصید، حدیث: ۱۸۴۱، وصحیح مسلم، الحجد، حدیث: ۱۱۷۸) (4) سوال تھا کیا پہنے؟ جواب ملا، فلاں فلاں چیز نہ پہنے۔ کیونکہ یہ پہنی جانے والی چیزیں قلیل ہیں اور پہنی جانے والی کثیر، لہٰذا اختصار کی خاطر ایسے جواب دیا۔ یہ بھی بلاغت کی ایک بہترین صورت ہے کہ جواب کے ساتھ ساتھ سوال کی تصحیح کر دی جائے۔ (5) حدیث میں مذکور لباس کی ممانعت اور دو سادہ ان سلے کپڑے پہننے میں حکمت یہ ہے کہ آدمی خشوع وتذلل کی صفت سے متصف اور رفاہیت سے دور رہے تاکہ اسے یاد دہانی رہے کہ وہ محرم ہے، اس لیے وہ کثرت اذکار اور عبادت کی طرف متوجہ رہے اور ممنوعات کے ارتکاب سے باز رہے، نیز اس سے مساوات اور اتحاد کا درس ملے۔
الحکم التفصیلی:
قلت : حديث الليث بن سعد أخرجه البخاري ( 1 / 47 ) والنسائي ( 2 /
2 - / 6 ) وحديث ابن جريج أخرجه الشافعي ( 1 / 299 / 775 ) وأحمد ( 2 / 47 ) كلاهما عن نافع عن عبد الله بن عمر أن رجلا قام في المسجد فقال : يا رسول الله من أين تأمرنا أن نهل ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : فذكر حديث المواقيت الذي ذكرته عند الكلام على الحديث ( 996 ) . ثم أخرج البخاري ( 1 / 460 ) من طريق الليث : حدثنا نافع من عبد الله ان عمر قال : قام رجل فقال : يا رسول الله ماذا تأمرنا أن نلبس من الثياب في الاحرام ؟ الحديث . فالظاهر أن القصة واحدة والسائل واحد سأل عن قضيتين : احداهما في المواقيت والاخرى في ثياب المحرم ثم فصل الرواة إحداهما عن الاخرى وصارا كأنهما قصتان متغايرتان عن رجلين مختلفين ( 9 ) . * ( هامش ) * ( 1 ) ثم وقفنا له علي سؤال ثالث فانظر الحديث 1036 . ( * )
ومما يؤيد ما ذكرته أننا قدمنا من رواية أيوب عن نافع في قصة الثياب أن الرجل نادى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يخطب في المسجد وقد أخرج البيهقى أيضا ( 5 / 26 ) من الرواية ذاتها عن نافع عن ابن عمر قال : ( نادى رجل رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في المسجد فقال : من أين تأمرنا أن نهل يا رسول الله ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ) فذكر حديث المواقيت . فثبت يقينا أن القصة واحدة والسائل واحد وأن ذلك وقع في المسجد النبوي قبل خروجه صلى الله عليه وسلم إلى الحج . وفي رواية لاحمد ( 2 / 22 ) من طريق محمد بن إسحاق عن نافع عن ابن عمر قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( ينهى النساء في الاحرام عن القفاز والنقاب وما مس الرؤوس والزعفران من الثياب ) . وأخرجه البخاري ( 1 / 461 ) وغيره من طرق أخرى عن نافع به . وفي أخرى له ( 2 / 31 ) من طريق جرير بن حازم : ثنا نافع قال : وجد ابن عمر القر وهو محرم فقال : ألق علي ثوبا فألقيت عليه برنسا فأخره وقال : تلقي علي ثوبا قد نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يلبسه المحرم ! ؟ ) . قلت : وإسناده صحيح . ثم أخرجه هو ( 2 / 57 و 141 ) وأبو داود ( 1828 ) من طريقين آخرين عن نافع به نحوه . وللحديث طريقان آخران عن ابن عمر . رضي الله عنه . أحدهما : عن سالم بن عبد الله عنه وسياق الكتاب له . أخرجه البخاري ( 1 / 104 و 462 و 4 / 77 ) ومسلم وأبو داود ( 1823 ) والنسائي والطحاوي وابن الجارود ( 416 ) والدارقطني والبيهقي والطيالسي ( 1806 ) وأحمد ( 2 / 8 و 34 ) وأبو نعيم في ( المستخرج ) من طرق عن الزهري
عن سالم به . وزاد ابن الجارود وأحمد : ( وليحرم أحدكم في إزار ورداء ونعلين فإن لم يجد نعلين . . . ) . وستأتى هذه الزيادة في الكتاب ( 1096 ) ونتكلم على إسنادها هناك . والاخرى : عن عبد الله بن دينار عنه قال : ( نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يلبس المحرم ثوبا مصبوغا بزعفران أو ورس وقال : من لم يجد نعلين فليلبس الخفين وليقطعهما أسفل من الكعبين ) . أخرجه البخاري ( 4 / 88 ) ومسلم وأبو نعيم وابن ماجه ( 2930 ) والبيهقي ( 5 / 50 ) وأحمد ( 2 / 66 ) كلهم من طريق مالك وهذا في ( الموطأ ) ( 1 / 325 / 9 ) عن عبد الله بن دينار به . وأخرجه الطيالسي ( 1883 ) وأحمد ( 2 / 47 و 74 و 81 و 139 ) من حديث شعبة عن عبد الله بن دينار به . ثم أخرجه أحمد ( 2 / 73 و 111 ) من طريقين آخرين عن ابن دينار به . وأخرجه الدارقطني ( 259 ) من طرق عن سفيان عن عمرو عن ابن عمر به . وزاد : ( قال : وقال عمرو : انظروا أيهما كان قبل ؟ حديث ابن عمر أو حديث ابن عباس ؟ ) . قلت : عمرو هو ابن دينار وهو يرويه عن ابن عباس أيضا وليس فيه قطع النعلين أسفل من الكعبين ولذلك أمر عمرو بالنظر في أيهما كان قبل . ولا شك أن حديث ابن عمر كان قبل حديث ابن عباس لما سبق تحقيقه أن هذا الحديث خطب به عليه السلام في مسجد المدينة قبل خروجه إلى الحج وأما حديث ابن عباس فإنما خطب به صلى الله عليه وسلم بعد ذلك وهو في عرفات وهو الحديث المذكور في الكتاب عقب هذا
حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا: محرم کون سے کپڑے پہن سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”وہ قمیص، برانڈی (ٹوپی دار کرتا)، شلوار، پگڑی، ایسا کپڑا جسے ورس یا زعفران لگا ہو اور موزے نہیں پہن سکتا مگر یہ کہ اس کے پاس جوتے نہ ہوں تو وہ موزے پہن لے مگر انھیں ٹخنوں سے نیچے کاٹ (کر جوتوں کی طرح بنا) لے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) محرم کے لیے ضابطہ یہ ہے کہ سر نہ ڈھانپے اور سلا ہوا کپڑا نہ پہنے، خوشبو والا کپڑا بھی نہ پہنے۔ باقی کپڑے پہن سکتا ہے۔ (2) ”برانڈی“ وہ کوٹ یا کرتا جس کے ساتھ ٹوپی بھی ہوتی ہے۔ (3) ”موزے“ یعنی چمڑے کے موزے۔ صحیح قول کے مطابق موزوں کا پہننا جائز ہے، خواہ وہ کٹے ہوئے نہ بھی ہوں۔ دراصل احرام کی حالت میں موزے پہننے کی بابت دو قسم کی روایات آتی ہیں: ایک یہ کہ انھیں کاٹ کر پہنا جائے اور دوسری یہ کہ موزوں کو ان کی اصل حالت میں پہنا جائے، البتہ جس حدیث میں موزے کاٹنے کا حکم ہے وہ ابتدائے احرام کا ہے جبکہ دوسرا حکم عرفے کے دن کا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کاٹنے کا حکم منسوخ ہے۔ واللہ أعلم! دیکھیے: (صحیح البخاري، جزاء الصید، حدیث: ۱۸۴۱، وصحیح مسلم، الحجد، حدیث: ۱۱۷۸) (4) سوال تھا کیا پہنے؟ جواب ملا، فلاں فلاں چیز نہ پہنے۔ کیونکہ یہ پہنی جانے والی چیزیں قلیل ہیں اور پہنی جانے والی کثیر، لہٰذا اختصار کی خاطر ایسے جواب دیا۔ یہ بھی بلاغت کی ایک بہترین صورت ہے کہ جواب کے ساتھ ساتھ سوال کی تصحیح کر دی جائے۔ (5) حدیث میں مذکور لباس کی ممانعت اور دو سادہ ان سلے کپڑے پہننے میں حکمت یہ ہے کہ آدمی خشوع وتذلل کی صفت سے متصف اور رفاہیت سے دور رہے تاکہ اسے یاد دہانی رہے کہ وہ محرم ہے، اس لیے وہ کثرت اذکار اور عبادت کی طرف متوجہ رہے اور ممنوعات کے ارتکاب سے باز رہے، نیز اس سے مساوات اور اتحاد کا درس ملے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ محرم کون سے کپڑے پہنے؟ آپ نے فرمایا: ”محرم قمیص (کرتا) ٹوپی، پائجامہ، عمامہ (پگڑی) اور ورس اور زعفران لگا کپڑا نہ پہنے،۱؎ اور موزے نہ پہنے اور اگر جوتے میسر نہ ہوں تو چاہیئے کہ دونوں موزوں کو کاٹ ڈالے یہاں تک کہ انہیں ٹخنوں سے نیچے کر لے۔“ ۲؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس بات پر اجماع ہے کہ حالت احرام میں عورت کے لیے وہ تمام کپڑے پہننے جائز ہیں جن کا اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے صرف ورس اور زعفران لگے ہوئے کپڑے نہ پہنے، نیز اس بات پر بھی اجماع ہے کہ حالت احرام میں مرد کے لیے حدیث میں مذکور یہ کپڑے پہننے جائز نہیں ہیں قمیص اور سراویل میں تمام سلے ہوئے کپڑے داخل ہیں اسی طرح عمامہ اور خفین سے ہر وہ چیز مراد ہے جو سر اور قدم کو ڈھانپ لے، البتہ پانی میں سر کو ڈبونے یا ہاتھ یا چھتری سے سر کو چھپانے میں کوئی حرج نہیں۔ ۲؎ : جمہور نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے موزوں کے کاٹنے کی شرط لگائی ہے لیکن امام احمد نے بغیر کاٹے موزہ پہننے کو جائز قرار دیا ہے کیونکہ ابن عباس کی روایت «ومَن لم يجدْ نعلَينِ فليلْبَسْخُفَّينِ» جو بخاری میں آئی ہے مطلق ہے لیکن اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہاں مطلق کو مقید پر محمول کیا جائے گا، حنابلہ نے اس روایت کے کئی جواب دیئے ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ ابن عمر رضی الله عنہما کی یہ روایت منسوخ ہے کیونکہ یہ احرام سے قبل مدینہ کا واقعہ ہے اور ابن عباس رضی الله عنہما کی روایت عرفات کی ہے اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ابن عمر رضی الله عنہما کی روایت حجت کے اعتبار سے ابن عباس رضی الله عنہما کی روایت سے بڑھی ہوئی ہے، کیونکہ وہ ایسی سند سے مروی ہے جو اصح الاسانید ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Salim that his father said: “The Messenger of Allah (ﷺ) was asked what clothes the Muhrim may wear. He said: ‘He should not wear a shirt, or a burnous, or pants, or an ‘Imamah (turban), or any garment that has been touched by (dyed with) wars or saffron, or Khuffs — except for one who cannot find sandals. If he cannot find sandals, then let him cut them until they come lower than the ankles.”(Sahih).