Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: Hajj without any clear intention on the part of the Pilgrim in Ihram)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2745.
حضرت براء ؓ سے مروی ہے کہ جب نبیﷺ نے حضرت علی ؓ کو یمن پر حاکم مقرر فرمایا تو میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ مجھے بھی ان کے ساتھ کچھ اوقیے ملے تھے، پھر جب حضرت علی ؓ نبیﷺ کے پاس (یمن سے حجۃ الوداع میں مکہ) آئے تو حضرت علی ؓ نے فرمایا: میں نے دیکھا کہ حضرت فاطمہؓ نے گھر کو خوشبو لگا رکھی تھی۔ میں (حضرت فاطمہ کی طرف توجہ کیے بغیر) گھر سے گزر گیا تو وہ مجھے کہنے لگیں: کیا وجہ ہے؟ (آپ توجہ نہیں فرما رہے)؟ رسول اللہﷺ نے اپنے صحابہ کو خود حکم دیا ہے اور وہ حلال ہو چکے ہیں۔ میں نے کہا: میں نے تو نبیﷺ کے احرام کی طرح احرام باندھا ہے، پھر میں نبیﷺ کے پاس آیا۔ آپ نے فرمایا: ”تم نے کیسے احرام باندھا ہے؟“ میں نے کہا: میں نے آپ کے احرام کی طرح باندھا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”میں قربانی کے جانور ساتھ لایا ہوں اور میں نے حج اور عمرے کا اکٹھا احرام باندھا ہے۔“
تشریح:
(1) یہ روایت شواہد کی بنا پر صحیح ہے جیسا کہ تفصیل حدیث نمبر ۲۷۲۶ کے فوائد میں گزر چکی ہے۔ (2) ”اوقیے ملے تھے۔“ اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے وقتی طور پر زکاۃ وغیرہ اکٹھی کرنے پر مقرر کیے گئے ہوں گے تو اس کام کے عوض انھیں کچھ اوقیے ملے۔ (3) ”خوشبو لگا رکھی تھی“ کیونکہ وہ عمرہ کر کے حلال ہو چکی تھیں اور انھیں توقع تھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی حلال ہو جائیں گے لیکن چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قربانی کے جانور تھے، لہٰذا وہ یوم نحر سے پہلے حلال نہیں ہو سکتے تھے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح، وكذلك قال ابن القيم، وصححه أيضاً ابن
حجر) .
إسناده: حدثنا يحيى بن معين قال: ثنا حجاج: ثنا يونس عن أبي إسحاق
عن البراء.
قلت: وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير يونس- وهو ابن
أبي إسحاق السبيعي-، وهو ثقة من رجال مسلم، على ضعف يسير فيه، أشار
إليه الحافظ بقوله:
" صدوق يهم قليلاً ".
وبه أعله المنذري في "مختصره "!
وإعلاله بأبيه أولى عندي؛ لأنه كان مدلساً ومختلطاً، ولا ندري أسمعه ابنه
منه قبل الاختلاط أم بعده؟
لكن الحديث صحيح؛ لأن له شواهد في أحاديث متفرقة، فعامته قد صح في
حديث جابر الطويل في الحج، وسيأتي في الكتاب إن شاء الله تعالى (1663) .
وقوله: " وقرنت " يشهد له حديث أنس بن مالك... مرفوعاً؛ بلفظ:
"... ولو استقبلت من أمري ما استدبرت؛ لجعلتها عمرة، ولكن سقت
الهدي، وقرنت بين الحج والعمرة ".
أخرجه أحمد (3/148 و 266) ، والطحاوي (1/378- 379) من طريقين عن
أبي إسحاق عن أبي أسماء الصَّيقَلِ عنه.
لكنْ أبو أسماء هذا مجهول، لم يرو عنه غير أبي إسحاق، وهو السبيعي.
وحديث سراقة... مرفوعاً:
" دخلت العمرة في الحج إلى يوم القيامة ".
قال: وقرن رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في حجة الوداع.
أخرجه أحمد (4/175) ، والطحاوي (1/379) من طريق داود بن يزيد
الأوْدِيِّ؛ وهو ضعيف كما قال الهيثمي (3/235) . ووهم ابن القيم في "الزاد"
(1/250) ، فقال:
" إسناده ثقات "!
نعم أخرجه ابن ماجه (2977) بسند صحيح عن سُرَاقَةَ... به؛ دون
قوله: وقرن رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ...
وعن جابر: أن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ، فقرن بين الحج والعمرة. قال الهيثمي:
" رواه البزار، ورجاله رجال (الصحيح) ".
وكأنه لهذه الشواهد؛ قال ابن القيم في "تهذيب السنَنِ ":
" حديث صحيح ".
وصححه الحافظ في "الفتح " (3/335) .
وعزاه ابن القيم في "الزاد" (1/262) للمتفق عليه! فوهم.
والحديث أخرجه البيهقي (5/15) من طريق المصنف.
وأخرجه النسائي (2/14 و 17) من طريقين آخرين عن يحيى بن
معين... به؛ دون ما بعد قوله: " وقرنت ".
وأعله البيهقي بأن قوله هذا: " وقرنت " لم يرد في. حديث جابر الطويل حين
وصف قدوم علي وإهلاله، وهو أصح سنداً وأحسن سياقة، ومعه حديث أنس.
قال المنذري:
" يريد: أن حديث أنس ذكر فيه قدوم علي وذكر إهلاله، وليس فيه: " قرنت "،
وهو في "الصحيحين "... ".
وأقول: لعل في تلك الشواهد المتقدمة ما يقوي هذه الزيادة، ويخلصها من
النكارة التي يشير إليها كلام البيهقي المذكور. والله أعلم.
(تنبيه) : قال العراقي في "طرح التثريب " (5/20) ، والحافظ في "الفتح "
(3/334) :
" ولأبي داود والنسائي من حديث البراء... مرفوعاً: " إني سقت الهدي
وقرنت ". وللنسائي من حديث علي مثله "!
قلت: حديث البراء وحديث علي واحد، ي. هو هذا أ غاية ما في الأمر أن البراء
رواه عنه؛ لقوله فيه:
قال (يعنيي: علياً) : فأتيت النجي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ....
ومثله عند النسائي في الموضعين.
وكذلك أورده الهيثمي (3/237) من رواية الطبراني في " الأوسط"، وقال:
" ورجاله رجال (الصحيح) ".
حضرت براء ؓ سے مروی ہے کہ جب نبیﷺ نے حضرت علی ؓ کو یمن پر حاکم مقرر فرمایا تو میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ مجھے بھی ان کے ساتھ کچھ اوقیے ملے تھے، پھر جب حضرت علی ؓ نبیﷺ کے پاس (یمن سے حجۃ الوداع میں مکہ) آئے تو حضرت علی ؓ نے فرمایا: میں نے دیکھا کہ حضرت فاطمہؓ نے گھر کو خوشبو لگا رکھی تھی۔ میں (حضرت فاطمہ کی طرف توجہ کیے بغیر) گھر سے گزر گیا تو وہ مجھے کہنے لگیں: کیا وجہ ہے؟ (آپ توجہ نہیں فرما رہے)؟ رسول اللہﷺ نے اپنے صحابہ کو خود حکم دیا ہے اور وہ حلال ہو چکے ہیں۔ میں نے کہا: میں نے تو نبیﷺ کے احرام کی طرح احرام باندھا ہے، پھر میں نبیﷺ کے پاس آیا۔ آپ نے فرمایا: ”تم نے کیسے احرام باندھا ہے؟“ میں نے کہا: میں نے آپ کے احرام کی طرح باندھا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”میں قربانی کے جانور ساتھ لایا ہوں اور میں نے حج اور عمرے کا اکٹھا احرام باندھا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) یہ روایت شواہد کی بنا پر صحیح ہے جیسا کہ تفصیل حدیث نمبر ۲۷۲۶ کے فوائد میں گزر چکی ہے۔ (2) ”اوقیے ملے تھے۔“ اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے وقتی طور پر زکاۃ وغیرہ اکٹھی کرنے پر مقرر کیے گئے ہوں گے تو اس کام کے عوض انھیں کچھ اوقیے ملے۔ (3) ”خوشبو لگا رکھی تھی“ کیونکہ وہ عمرہ کر کے حلال ہو چکی تھیں اور انھیں توقع تھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی حلال ہو جائیں گے لیکن چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قربانی کے جانور تھے، لہٰذا وہ یوم نحر سے پہلے حلال نہیں ہو سکتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
براء بن عازب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں علی ؓ کے ساتھ تھا جس وقت رسول اللہ ﷺ نے انہیں یمن کا گورنر (امیر) بنایا تو مجھے ان کے ساتھ کئی اوقیے ملے جب علی ؓ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، میں نے تو فاطمہ ؓ کو دیکھا کہ انہوں نے گھر میں خوشبو پھیلا رکھی ہے، تو میں گھر سے نکل کر باہر آ گیا، تو انہوں نے مجھ سے کہا: آپ کو کیا ہوا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کو حکم دیا تو انہوں نے اپنے احرام کھول دیا، میں نے کہا: میں نے تو نبی اکرم ﷺ کے تلبیہ کی طرح تلبیہ پکارا ہے، تو میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، آپ نے مجھ سے پوچھا: ”تو تم نے کیسے کیا ہے؟“ میں نے کہا: میں نے آپ کی طرح تلبیہ پکارا ہے، آپ نے فرمایا: ”میں تو ہدی ساتھ لایا ہوں اور میں نے قران کیا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Al-Bara’ said: “I was with ‘Ali when the Messenger of Allah (ﷺ) appointed him as goveror of Yemen. When ‘Ali came to the Messenger of Allah (ﷺ), ‘Ali said: ‘I found that Fatimah had perfumed the house with perfume.’ He said: ‘I tried to avoid it, and she said to me: What is the matter with you? The Messenger of Allah (ﷺ) told his Companions to exit Ihram.’ He said: ‘I said: I have entered Ihram for that for which the Prophet (ﷺ) entered Ihram.” He said: ‘So I went to the Prophet (ﷺ) and he said to me: “What did you do?” I said: “I entered Ihram for that for which you entered Ihram.” He said: “I have brought the Hadi and am performing Qirn.” (Sahih).