Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: Actions Related To Entering Ihram)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2757.
حضرت سالم نے اپنے والد (حضرت ابن عمر ؓ ) کو فرماتے سنا کہ یہ تمھاری بیداء ہے جس کی بابت تم نبیﷺ پر جھوٹ بولتے (غلط بیانی کرتے) ہو۔ نبیﷺ نے ذوالحلیفہ کی مسجد سے لبیک کہہ لیا تھا۔
تشریح:
(1) عام لوگوں میں مشہور تھا کہ رسول اللہﷺ نے بیداء کے میدان میں لبیک کہنا شروع فرمایا لیکن یہ درست نہیں۔ اصل یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے ذوالحلیفہ میں بہ حیثیت مسافر، ظہر کی دو رکعتیں پڑھیں اور سلام کے بعد وہیں لبیک پکارا مگر وہ صرف چند قریبی ساتھیوں نے سنا، پھر آپ سواری پر تشریف فرما ہوئے تو پھر لبیک پکارا۔ اسے پہلے سے زیادہ لوگوں نے سنا، پھر آپ بیداء میں پہنچے تو آپ نے پھر لبیک پکارا۔ وہ تقریباً سب لوگوں نے سنا۔ جس نے جس جگہ سنا، اسی کے بارے میں بیان کیا۔ اس میں کوئی جھوٹ نہیں۔ اپنے اپنے علم کی بات ہے، البتہ احرام کی ابتدا ذوالحلیفہ سے ہوئی اور وہیں آپ نے لبیک کہنا شروع کیا تھا۔ (2) ”جھوٹ بولتے ہو۔“ یعنی تمھیں غلط فہمی ہے کہ آپ نے لبیک کی ابتدا بیداء سے فرمائی۔ عربی میں غلط فہمی کو بھی جھوٹ کہہ لیتے ہیں کیونکہ دونوں خلاف واقعہ ہوتے ہیں۔ (3) ”ذوالحلیفہ کی مسجد“ اس وقت وہاں مسجد نہیں تھی۔ مسجد بعد میں بطور یادگار بنائی گئی۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه. وصححه
الترمذي) .
إسناده: حدثنا القعنبي عن مالك عن موسى بن عقبة عن سالم بن عبد الله.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه من طريق مالك،
وهذا في "الموطأ"... به، وهو مخرج في "الإرواء" (1097) .
حضرت سالم نے اپنے والد (حضرت ابن عمر ؓ ) کو فرماتے سنا کہ یہ تمھاری بیداء ہے جس کی بابت تم نبیﷺ پر جھوٹ بولتے (غلط بیانی کرتے) ہو۔ نبیﷺ نے ذوالحلیفہ کی مسجد سے لبیک کہہ لیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) عام لوگوں میں مشہور تھا کہ رسول اللہﷺ نے بیداء کے میدان میں لبیک کہنا شروع فرمایا لیکن یہ درست نہیں۔ اصل یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے ذوالحلیفہ میں بہ حیثیت مسافر، ظہر کی دو رکعتیں پڑھیں اور سلام کے بعد وہیں لبیک پکارا مگر وہ صرف چند قریبی ساتھیوں نے سنا، پھر آپ سواری پر تشریف فرما ہوئے تو پھر لبیک پکارا۔ اسے پہلے سے زیادہ لوگوں نے سنا، پھر آپ بیداء میں پہنچے تو آپ نے پھر لبیک پکارا۔ وہ تقریباً سب لوگوں نے سنا۔ جس نے جس جگہ سنا، اسی کے بارے میں بیان کیا۔ اس میں کوئی جھوٹ نہیں۔ اپنے اپنے علم کی بات ہے، البتہ احرام کی ابتدا ذوالحلیفہ سے ہوئی اور وہیں آپ نے لبیک کہنا شروع کیا تھا۔ (2) ”جھوٹ بولتے ہو۔“ یعنی تمھیں غلط فہمی ہے کہ آپ نے لبیک کی ابتدا بیداء سے فرمائی۔ عربی میں غلط فہمی کو بھی جھوٹ کہہ لیتے ہیں کیونکہ دونوں خلاف واقعہ ہوتے ہیں۔ (3) ”ذوالحلیفہ کی مسجد“ اس وقت وہاں مسجد نہیں تھی۔ مسجد بعد میں بطور یادگار بنائی گئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سالم سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد عبداللہ بن عمر ؓ کو کہتے سنا: تمہارا یہ بیداء وہی ہے جس کے تعلق سے تم لوگ رسول اللہ ﷺ کی طرف غلط بات منسوب کرتے ہو۱؎ رسول اللہ ﷺ نے (بیداء سے نہیں) ذوالحلیفہ کی مسجد ہی سے تلبیہ پکارا ہے۔۲؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : واقع کے خلاف خبر دینے کو جھوٹ کہتے ہیں، خواہ یہ عمداً ہو یا کسی غلط فہمی اور سہو کی وجہ سے ہو، ابن عمر رضی الله عنہما نے انہیں جھوٹا اس اعتبار سے کہا ہے کہ انہیں غلط فہمی ہوئی ہے نہ اس اعتبار سے کہ انہوں نے عمداً جھوٹ کہا ہے۔ ۲؎ : اس مسئلہ میں صحابہ میں اختلاف ہے بعض کا کہنا ہے کہ آپ نے احرام ذو الحلیفہ میں احرام کی دونوں رکعتوں کے پڑھنے کے بعد مسجد میں ہی تلبیہ پکارنا شروع کیا تھا اور بعض کا کہنا ہے کہ جس وقت آپ سواری پر سیدھے بیٹھے اس وقت آپ نے تلبیہ پکارا، اور بعض کا کہنا ہے کہ سواری جس وقت آپ کو لے کر کھڑی ہوئی اس وقت آپ نے تلبیہ پکارنا شروع کیا، اس اختلاف کی وجہ ہے کہ لوگ مختلف وقتوں میں الگ الگ مختلف ٹکڑوں میں آپ کے پاس آ رہے تھے تو لوگوں نے جہاں آپ کو تلبیہ پکارتے سنا یہی سمجھا کہ آپ نے یہیں سے تلبیہ شروع کیا ہے، حالانکہ آپ نے تلبیہ پکارنے کی شروعات وہیں کر دی تھی جہاں آپ نے احرام کی دونوں رکعتیں پڑھی تھیں، پھر جب اونٹنی آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہوئی تو آپ نے تلبیہ پکارا، پھر بیداء کی اونچائی پر چڑھتے وقت آپ نے تلبیہ پکارا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Salim that he heard his father say: “This Baida’ of yours where you are telling lies about the Messenger of Allah (ﷺ). The Messenger of Allah (ﷺ) never began the Talbiyah except from the Masjid at Dhul Hulaifah.” (Sahih)