باب: جس آدمی کے ساتھ قربانی کاجانور نہ ہو ‘وہ حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں بدل سکتا ہے؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: It Is Permissible To Cancel Hajj And Do 'Umrah Instead If One Has Not Brought A Hadi)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2803.
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ہم (حجۃ الوداع میں مدینہ منورہ سے) رسول اللہﷺ کے ساتھ چلے۔ ہماری نیت صرف حج کی تھی۔ جب ہم مکہ مکرمہ پہنچے تو ہم نے بیت اللہ کا طواف کیا (اور صفا مروہ کے درمیان سعی کی)۔ رسول اللہﷺ نے ان لوگوں کو جن کے ساتھ قربانی کے جانور نہیں تھے، حکم دیا کہ وہ حلال ہو جائیں۔ تو جو شخص قربانی ساتھ نہیں لائے تھے، وہ حلال ہوگئے۔ آپ کی بیویاں بھی قربانی کے جانور ساتھ نہیں لائی تھیں، وہ بھی حلال ہوگئیں۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: مجھے تو حیض آنے لگا تھا، لہٰذا میں بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکی تھی۔ جب محصب والی رات (چودھویں) ہوئی تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! لوگ حج اور عمرہ کر کے (اپنے گھروں کو) جائیں گے اور میں صرف حج کر کے جاؤں گی؟ آپﷺ نے فرمایا: ”جب ہم مکہ مکرمہ آئے تھے تو تم نے ان راتوں میں طواف نہیں کیا تھا؟“ میں نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”اپنے بھائی (حضرت عبدالرحمن ؓ ) کے ساتھ تنعیم کے مقام پر جاؤ اور عمرے کا احرام باندھو، پھر (عمرے کی ادائیگی کے بعد) ہمیں فلاں مقام پر آملنا۔“
تشریح:
یہ حدیث پیچھے گزر چکی ہے۔ تفصیل فوائد کے لیے دیکھیے، حدیث: ۲۷۶۴، ۲۷۶۵۔ باقی رہا باب والا مسئلہ کہ کیا ہر حج کے احرام والا جس کے ساتھ قربانی نہ ہو، عمرہ کر کے حلال ہو سکتا ہے؟ حلال ہو سکتا ہے، یہی بات درست ہے۔ امام احمد اور اہل ظاہر اسے اب بھی جائز سمجھتے ہیں بلکہ بعض محققین کے نزدیک احرام حج والا مکہ میں آئے تو لازماً اس کے حج کا احرام عمرے میں بدل جائے گا اور اسے حلال ہونا ہی پڑے گا، وہ چاہے یا نہ چاہے۔ تمتع قیامت تک کے لیے جائز ہے کیونکہ قرآن مجید میں اس کی صریح اجازت ہے اور خطاب بھی عام ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه) .
إسناده: حدثنا عثمان بن أبي شيبة: ثنا جرير عن منصور عن إبراهيم عن
الأسود عن عائشة.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه كما يأتي.
والحديث أخرجه مسلم من طرق أخرى عن جرير.
والبخاري (3/464) ، وأحمد (6/122 و 191 و 253 و 266) من طرق أخرى
عن منصور بن المعتمر... به.
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ہم (حجۃ الوداع میں مدینہ منورہ سے) رسول اللہﷺ کے ساتھ چلے۔ ہماری نیت صرف حج کی تھی۔ جب ہم مکہ مکرمہ پہنچے تو ہم نے بیت اللہ کا طواف کیا (اور صفا مروہ کے درمیان سعی کی)۔ رسول اللہﷺ نے ان لوگوں کو جن کے ساتھ قربانی کے جانور نہیں تھے، حکم دیا کہ وہ حلال ہو جائیں۔ تو جو شخص قربانی ساتھ نہیں لائے تھے، وہ حلال ہوگئے۔ آپ کی بیویاں بھی قربانی کے جانور ساتھ نہیں لائی تھیں، وہ بھی حلال ہوگئیں۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: مجھے تو حیض آنے لگا تھا، لہٰذا میں بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکی تھی۔ جب محصب والی رات (چودھویں) ہوئی تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! لوگ حج اور عمرہ کر کے (اپنے گھروں کو) جائیں گے اور میں صرف حج کر کے جاؤں گی؟ آپﷺ نے فرمایا: ”جب ہم مکہ مکرمہ آئے تھے تو تم نے ان راتوں میں طواف نہیں کیا تھا؟“ میں نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”اپنے بھائی (حضرت عبدالرحمن ؓ ) کے ساتھ تنعیم کے مقام پر جاؤ اور عمرے کا احرام باندھو، پھر (عمرے کی ادائیگی کے بعد) ہمیں فلاں مقام پر آملنا۔“
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث پیچھے گزر چکی ہے۔ تفصیل فوائد کے لیے دیکھیے، حدیث: ۲۷۶۴، ۲۷۶۵۔ باقی رہا باب والا مسئلہ کہ کیا ہر حج کے احرام والا جس کے ساتھ قربانی نہ ہو، عمرہ کر کے حلال ہو سکتا ہے؟ حلال ہو سکتا ہے، یہی بات درست ہے۔ امام احمد اور اہل ظاہر اسے اب بھی جائز سمجھتے ہیں بلکہ بعض محققین کے نزدیک احرام حج والا مکہ میں آئے تو لازماً اس کے حج کا احرام عمرے میں بدل جائے گا اور اسے حلال ہونا ہی پڑے گا، وہ چاہے یا نہ چاہے۔ تمتع قیامت تک کے لیے جائز ہے کیونکہ قرآن مجید میں اس کی صریح اجازت ہے اور خطاب بھی عام ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے، اور ہمارے پیش نظر صرف حج تھا، جب ہم مکہ آئے تو ہم نے بیت اللہ کا طواف کیا، رسول اللہ ﷺ نے جو لوگ ہدی لے کر نہیں آئے تھے انہیں احرام کھول دینے کا حکم دیا تو جو ہدی نہیں لائے تھے حلال ہو گئے، آپ کی بیویاں بھی ہدی لے کر نہیں آئیں تھیں تو وہ بھی حلال ہو گئیں، تو مجھے حیض آ گیا (جس کی وجہ سے) میں بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکی، جب محصب کی رات آئی تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! لوگ حج و عمرہ دونوں کر کے اپنے گھروں کو واپس جائیں گے اور میں صرف حج کر کے لوٹوں گی، آپ نے پوچھا: ”کیا تم نے ان راتوں میں جن میں ہم مکہ آئے تھے طواف نہیں کیا تھا؟“ میں نے عرض کیا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”تو تم اپنے بھائی کے ساتھ تنعیم جاؤ، وہاں عمرے کا تلبیہ پکارو، (اور طواف وغیرہ کر کے) واپس آ کر فلاں فلاں جگہ ہم سے ملو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Aishah said: "We went out with the Messenger of Allah (ﷺ) not thinking of anything but Hajj. When we came to Makkah we circumambulated the house, then the Messenger of Allah (ﷺ) told those who have not brought a Hadi to exit Ihram. So those who have not brought a Hadi exited Ihram. His wives had not brought a Hadi so they exited Ihram too." 'Aishah said: "My menses came so I did not circumambulate the House. On the night of Al-Hasbah (the twelfth night of Dhul-Hajjah) I said" "O Messenger of Allah, the people are going back having done Umrah and Hajj, But I am going back having done only Hajj. He said: 'Did you not perform Tawaf when we came to Makkah?' I said: 'No.' He said: 'Then go with your brother to At-Tan'im and enter Ihram for Umrah then we will meet you and such and such a place.