Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: What The Muhrim May Not Kill)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2836.
حضرت ابن ابی عمار بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے بجو کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے مجھے اس کے کھانے کی اجازت بتلائی۔ میں نے کہا کہ وہ بھی شکار ہے؟ انھوں نے فرمایا: ہاں۔ میں نے کہا: کیا اپ نے یہ بات رسول اللہﷺ سے سنی ہے؟ انھوں نے فرمایا: ہاں۔
تشریح:
(1) بجو مردار خور نہیں۔ اگر یہ مردار خور ہوتا تو اسے حرام کہنے میں کوئی باک نہیں تھا۔ چونکہ یہ حلال جانور ہے جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث سے ثابت ہوتا ہے، لہٰذا یہ شکار کی ذیل میں آتا ہے۔ محرم کے لیے شکار حرام ہے، لہٰذا وہ بجو کو نہیں مار سکتا۔ اگر مارے گا تو اسے اس کا فدیہ دینا پڑے گا۔ جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ ان شاء اللہ (2) اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے کہ محرم بجو کو قتل یا شکار نہیں کر سکتا، البتہ اس کی حلت کے بارے میں اختلاف ہے۔ امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ اسے کھانا حلال سمجھتے ہیں۔ دیگر اہل علم نے اسے حرام کہا ہے کہ یہ ”ذوناب“ (کچلی والا جانور) ہے۔ مگر شاید وہ اس بات سے غافل رہے کہ یہاں ذوناب کے لغوی معنیٰ مراد نہیں بلکہ ”ذوناب“ سے مراد شکاری جانور ہے جیسے کتا، شیر، چیتا وغیرہ اور بجو بالا تفاق شکاری نہیں۔ ”ناب“ تو وجہ حرمت نہیں۔ اس ناب میں کیا حرج جو شکار نہ کرے۔ (تفصیل ان شاء اللہ آگے بیان ہوگی)۔ (3) اس حدیث سے اشارتاً یہ بات سمجھ آتی ہے کہ محرم کوئی ایسا جانور شکار نہیں کر سکتا جسے کھایا جاتا یا جو کسی منفعت کی وجہ سے شکار کیا جاتا ہو۔ اگر وہ شکار کرے گا تو اسے جزا دینی پڑے گی۔
حضرت ابن ابی عمار بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے بجو کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے مجھے اس کے کھانے کی اجازت بتلائی۔ میں نے کہا کہ وہ بھی شکار ہے؟ انھوں نے فرمایا: ہاں۔ میں نے کہا: کیا اپ نے یہ بات رسول اللہﷺ سے سنی ہے؟ انھوں نے فرمایا: ہاں۔
حدیث حاشیہ:
(1) بجو مردار خور نہیں۔ اگر یہ مردار خور ہوتا تو اسے حرام کہنے میں کوئی باک نہیں تھا۔ چونکہ یہ حلال جانور ہے جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث سے ثابت ہوتا ہے، لہٰذا یہ شکار کی ذیل میں آتا ہے۔ محرم کے لیے شکار حرام ہے، لہٰذا وہ بجو کو نہیں مار سکتا۔ اگر مارے گا تو اسے اس کا فدیہ دینا پڑے گا۔ جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ ان شاء اللہ (2) اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے کہ محرم بجو کو قتل یا شکار نہیں کر سکتا، البتہ اس کی حلت کے بارے میں اختلاف ہے۔ امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ اسے کھانا حلال سمجھتے ہیں۔ دیگر اہل علم نے اسے حرام کہا ہے کہ یہ ”ذوناب“ (کچلی والا جانور) ہے۔ مگر شاید وہ اس بات سے غافل رہے کہ یہاں ذوناب کے لغوی معنیٰ مراد نہیں بلکہ ”ذوناب“ سے مراد شکاری جانور ہے جیسے کتا، شیر، چیتا وغیرہ اور بجو بالا تفاق شکاری نہیں۔ ”ناب“ تو وجہ حرمت نہیں۔ اس ناب میں کیا حرج جو شکار نہ کرے۔ (تفصیل ان شاء اللہ آگے بیان ہوگی)۔ (3) اس حدیث سے اشارتاً یہ بات سمجھ آتی ہے کہ محرم کوئی ایسا جانور شکار نہیں کر سکتا جسے کھایا جاتا یا جو کسی منفعت کی وجہ سے شکار کیا جاتا ہو۔ اگر وہ شکار کرے گا تو اسے جزا دینی پڑے گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابن ابی عمار کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ ؓ سے بجو کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھے اس کے کھانے کا حکم دیا، میں نے ان سے پوچھا: کیا وہ شکار ہے؟ کہا: ہاں، میں نے کہا: کیا آپ نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے؟ کہا: ہاں (میں نے سنا ہے)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn Abi ‘Ammar said: “I asked Jabir bin ‘Abdullah about hyenas, and he told me to eat them. I said: ‘Is it not game? He said: ‘Yes.’ I said: ‘Did you hear that from the Messenger of Allah (ﷺ) ?‘ He said: ‘Yes.” (Sahih)