Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: Entering Makkah Without Ihram)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2867.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر پر خود تھا۔ آپ سے کہا گیا کہ ابن خطل کعبہ کے پردوں سے لٹکا ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اسے قتل کر دو۔“
تشریح:
(1) ”خود تھا“ بعض روایات میں ہے کہ سیاہ پگڑی تھی۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث: ۱۳۵۸) ممکن ہے ایک وقت میں خود ہو، دوسرے وقت میں پگڑی ہو۔ یا خود کے اوپر پگڑی باندھ رکھی ہو یا پگڑی کے اوپر خود ہو۔ جو بھی صورت ہو، یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبیﷺ محرم نہیں تھے کیونکہ آپ حج یا عمرہ کرنے کی نیت سے نہیں آئے تھے۔ احرام اس شخص پر فرض ہے جو حج یا عمرے کی نیت سے مکہ مکرمہ میں داخل ہو جبکہ احناف کا خیال ہے کہ جو شخص بھی مکہ مکرمہ میں داخل ہونا چاہے، وہ میقات سے گزرتے وقت لازماً احرام باندھے۔ یہ روایت ان کے موقف کے خلاف ہے۔ (2) ”ابن خطل“ نام عبداللہ تھا۔ مسلمان ہونے کے بعد ایک آدمی کو قتل کر کے مرتد ہوگیا تھا۔ رسول اللہﷺ کی ہجو گوئی شروع کر دی تھی۔ چونکہ قصاصاً یہ شخص واجب القتل تھا، ارتداد کے جرم میں بھی اس کا قتل لازم تھا، رسول اللہﷺ کی ہجو گوئی بھی قتل کی سزا کا موجب تھی، اس لیے آپ نے فتح مکہ کے موقع پر اس کے قتل کا حکم صادر فرمایا تھا۔ اس نے بچنے کے لیے کعبہ کا غلاف پکڑ لیا، مگر ایسے ملعون کو معافی کیسے مل سکتی تھی۔ (3) ”قتل کر دو“ ویسے تو حرم میں قتل منع ہے۔ مجرم کو باہر لے جا کر سزا دینی چاہیے مگر فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہﷺ کے لیے خصوصی طور پر کچھ دیر کے لیے حرم میں قتل کی اجازت تھی، پھر قیامت تک کے لیے حرام کر دیا گیا۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر پر خود تھا۔ آپ سے کہا گیا کہ ابن خطل کعبہ کے پردوں سے لٹکا ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اسے قتل کر دو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”خود تھا“ بعض روایات میں ہے کہ سیاہ پگڑی تھی۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث: ۱۳۵۸) ممکن ہے ایک وقت میں خود ہو، دوسرے وقت میں پگڑی ہو۔ یا خود کے اوپر پگڑی باندھ رکھی ہو یا پگڑی کے اوپر خود ہو۔ جو بھی صورت ہو، یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبیﷺ محرم نہیں تھے کیونکہ آپ حج یا عمرہ کرنے کی نیت سے نہیں آئے تھے۔ احرام اس شخص پر فرض ہے جو حج یا عمرے کی نیت سے مکہ مکرمہ میں داخل ہو جبکہ احناف کا خیال ہے کہ جو شخص بھی مکہ مکرمہ میں داخل ہونا چاہے، وہ میقات سے گزرتے وقت لازماً احرام باندھے۔ یہ روایت ان کے موقف کے خلاف ہے۔ (2) ”ابن خطل“ نام عبداللہ تھا۔ مسلمان ہونے کے بعد ایک آدمی کو قتل کر کے مرتد ہوگیا تھا۔ رسول اللہﷺ کی ہجو گوئی شروع کر دی تھی۔ چونکہ قصاصاً یہ شخص واجب القتل تھا، ارتداد کے جرم میں بھی اس کا قتل لازم تھا، رسول اللہﷺ کی ہجو گوئی بھی قتل کی سزا کا موجب تھی، اس لیے آپ نے فتح مکہ کے موقع پر اس کے قتل کا حکم صادر فرمایا تھا۔ اس نے بچنے کے لیے کعبہ کا غلاف پکڑ لیا، مگر ایسے ملعون کو معافی کیسے مل سکتی تھی۔ (3) ”قتل کر دو“ ویسے تو حرم میں قتل منع ہے۔ مجرم کو باہر لے جا کر سزا دینی چاہیے مگر فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہﷺ کے لیے خصوصی طور پر کچھ دیر کے لیے حرم میں قتل کی اجازت تھی، پھر قیامت تک کے لیے حرام کر دیا گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ (فتح مکہ کے موقع پر) خود پہنے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے، تو آپ سے کہا گیا کہ ابن خطل کعبہ کے پردوں سے لپٹا ہوا ہے، تو آپ نے فرمایا: ”اسے قتل کر دو۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : کیونکہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت اذیت پہنچایا کرتا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Anas that the Prophet (ﷺ) entered Makkah wearing a helmet. It was said that Ibn Khatal was hanging on to the drapes of the Ka’bah and he said: “Kill him.” (Sahih)