Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: The Sancity of Makkah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2874.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا: ”اس شہر کو اللہ تعالیٰ نے اس دن حرم (حرمت والا) قرار دیا تھا جس دن آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا تھا، لہٰذا یہ اللہ تعالیٰ کے حرام قرار دینے سے قیامت کے دن تک حرام رہے گا۔ اس کے کانٹے دار درخت نہ کاٹے جائیں۔ اور اس کے کسی جانور کو نہ بھگایا جائے اور یہاں کی گری پڑی چیز کو کوئی نہ اٹھائے مگر وہ شخص جو اعلان کرتا رہے۔ اور اس کی گھاس نہ کاٹی جائے۔“ حضرت عباس ؓ نے گزارش کی۔ اے اللہ کے رسول! مگر اذخر کو۔ آپ نے فرمایا: ”مگر اذخر کو (کاٹنے کی اجازت ہے)۔“
تشریح:
(1) ”اس شہر“ یعنی جو اب شہر بن چکا ہے ورنہ تحریم کے وقت تو شہر نہ تھا۔ (2) ”حرم قرار دیا“ یعنی فیصلہ فرما لیا تھا اگرچہ لوگوں کو اس بات کا علم بعد میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبانی ہوا۔ گویا فیصلہ اللہ تعالیٰ کا تھا اور اعلان حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا تھا، لہٰذا تحریم کی نسبت دونوں کی طرف ہو سکتی ہے۔ پہلی حقیقتاً دوسری مجازاً۔ (3) ”کانٹے دار درخت“ یعنی خود رو جنھیں کوئی لگاتا نہیں۔ باقی رہے وہ درخت جو پھل دار ہوں یا جنھیں بیج ڈال کر لگایا گیا ہو، اسی طرح فصلیں وغیرہ، تو انھیں کاٹا جا سکتا ہے اور پھل توڑ کر کھائے جا سکتے ہیں۔ (4) ”نہ بھگایا جائے“ یعنی شکار کے لیے اس کا پیچھا نہ کیا جائے اور اس سے بالکل تعرض نہ کیا جائے حتیٰ کہ سائے میں بیٹھے جانور کو سائے سے بھی نہ اٹھایا جائے۔ (5) ”اعلان کرتا رہے“ یعنی ہمیشہ اعلان ہی کرے۔ اپنے استعمال میں نہ لائے ورنہ حرم کی خصوصیت نہیں رہے گی۔ احناف کے نزدیک حرم کے لقطہ کی کوئی خصوصیت نہیں۔ صرف ایک سال ہی اعلان کا حکم ہے۔ عام لقطہ کی طرح یہاں خصوصی ذکر صرف تاکید اور تنبیہ کے لیے ہے کہ کوئی سستی نہ کرے۔ پہلی بات زیادہ قوی ہے۔ (6) اذخر مرچ کے پودے کی بالکل ہم شکل ایک قسم کی گھاس ہے جس کی لوگوں کو اشد ضرورت رہتی تھی، جلانے کے لیے، بچھانے کے لیے وغیرہ، اس لیے اس کے کاٹنے کی اجازت دے دی گئی۔ (7) ”مگر اذخر“ اس سے معلوم ہوا کہ بعض دفعہ رسول اللہﷺ اجتہاد کر کے حکم جاری فرما دیتے تھے اگر وہ درست نہ ہوتا تو وحی نازل ہو جاتی وگرنہ وہ حکم ثابت رہتا۔ دیگر حضرات اسے بھی وحی پر محمول کرتے ہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وأخرجاه، وصححه ابن
الجارود) .
إسناده: حدثنا عثمان بن أبي شيبة: ثنا جرير عن منصور عن مجاهد عن
طاوس عن ابن عباس.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه كما يأتي.
والحديث أخرجه البخاري (4/38) ... بإسناد المصنف؛ لكنه ساقه بتمامه،
وفيه الجملة التي ذكرها المصنف.
ثم أخرجه هو (3/352 و 6/218) ، ومسلم (4/109) ، والنسائي (2/30) ،
والبيهقي (5/195) من طرق أخرى عن جرير... به . وهو عند النسائي مختصر.
ثم أخرجه هو، ومسلم، وابن الجارود (509) ، وأحمد (1/259 و 315) من
طرق أخرى عن منصور... به.
والطحاوي (1/437) من طريق يزيد بن أبي زياد عن مجاهد... به.
وتابعه عكرمة عن ابن عباس... به: أخرجه البخاري (3/166 و 4/253
و 5/66) ، والبيهقي، وأحمد (1/253) .
ومعمر عن عمرو بن دينار عن ابن عباس: أخرجه أحمد (1/348) .
وسنده على شرط الشيخين. لكن خالفه زكريا بن إسحاق فقال: حدثنا عمرو
ابن دينار عن عكرمة عنه: علقه البخاري، ووصله الإسماعيلي وأبو نعيم، كما في
"الفتح "، ولم يتعرض لرواية معمر بذكر! ولعلها شاذة. والله أعلم.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا: ”اس شہر کو اللہ تعالیٰ نے اس دن حرم (حرمت والا) قرار دیا تھا جس دن آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا تھا، لہٰذا یہ اللہ تعالیٰ کے حرام قرار دینے سے قیامت کے دن تک حرام رہے گا۔ اس کے کانٹے دار درخت نہ کاٹے جائیں۔ اور اس کے کسی جانور کو نہ بھگایا جائے اور یہاں کی گری پڑی چیز کو کوئی نہ اٹھائے مگر وہ شخص جو اعلان کرتا رہے۔ اور اس کی گھاس نہ کاٹی جائے۔“ حضرت عباس ؓ نے گزارش کی۔ اے اللہ کے رسول! مگر اذخر کو۔ آپ نے فرمایا: ”مگر اذخر کو (کاٹنے کی اجازت ہے)۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”اس شہر“ یعنی جو اب شہر بن چکا ہے ورنہ تحریم کے وقت تو شہر نہ تھا۔ (2) ”حرم قرار دیا“ یعنی فیصلہ فرما لیا تھا اگرچہ لوگوں کو اس بات کا علم بعد میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبانی ہوا۔ گویا فیصلہ اللہ تعالیٰ کا تھا اور اعلان حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا تھا، لہٰذا تحریم کی نسبت دونوں کی طرف ہو سکتی ہے۔ پہلی حقیقتاً دوسری مجازاً۔ (3) ”کانٹے دار درخت“ یعنی خود رو جنھیں کوئی لگاتا نہیں۔ باقی رہے وہ درخت جو پھل دار ہوں یا جنھیں بیج ڈال کر لگایا گیا ہو، اسی طرح فصلیں وغیرہ، تو انھیں کاٹا جا سکتا ہے اور پھل توڑ کر کھائے جا سکتے ہیں۔ (4) ”نہ بھگایا جائے“ یعنی شکار کے لیے اس کا پیچھا نہ کیا جائے اور اس سے بالکل تعرض نہ کیا جائے حتیٰ کہ سائے میں بیٹھے جانور کو سائے سے بھی نہ اٹھایا جائے۔ (5) ”اعلان کرتا رہے“ یعنی ہمیشہ اعلان ہی کرے۔ اپنے استعمال میں نہ لائے ورنہ حرم کی خصوصیت نہیں رہے گی۔ احناف کے نزدیک حرم کے لقطہ کی کوئی خصوصیت نہیں۔ صرف ایک سال ہی اعلان کا حکم ہے۔ عام لقطہ کی طرح یہاں خصوصی ذکر صرف تاکید اور تنبیہ کے لیے ہے کہ کوئی سستی نہ کرے۔ پہلی بات زیادہ قوی ہے۔ (6) اذخر مرچ کے پودے کی بالکل ہم شکل ایک قسم کی گھاس ہے جس کی لوگوں کو اشد ضرورت رہتی تھی، جلانے کے لیے، بچھانے کے لیے وغیرہ، اس لیے اس کے کاٹنے کی اجازت دے دی گئی۔ (7) ”مگر اذخر“ اس سے معلوم ہوا کہ بعض دفعہ رسول اللہﷺ اجتہاد کر کے حکم جاری فرما دیتے تھے اگر وہ درست نہ ہوتا تو وحی نازل ہو جاتی وگرنہ وہ حکم ثابت رہتا۔ دیگر حضرات اسے بھی وحی پر محمول کرتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ وہ شہر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اسی دن سے محترم قرار دیا ہے جس دن اس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا، لہٰذا یہ اللہ کی حرمت کی سبب سے قیامت تک حرمت والا رہے گا، نہ اس کے کانٹے کاٹے جائیں گے، نہ اس کے شکار بدکائے جائیں گے، نہ وہاں کی کوئی گری پڑی چیز اٹھائے گا سوائے اس شخص کے جو اس کی پہچان کرائے اور نہ وہاں کی ہری شاخ کاٹی جائے گی“، اس پر ابن عباس ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! سوائے اذخر کے ۱؎ تو آپ نے ایک بات کہی جس کا مفہوم ہے سوائے اذخر کے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اذخر ایک قسم کی مشہور گھاس ہے جو خوشبودار ہوتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn ‘Abbas said: “The Messenger of Allah (ﷺ) said on the day of the Conquest: ‘Allah made this land sacred the day He created the Heavens and the Earth, so it is sacred by the Decree of Allah until the Day of Resurrection. Its thorny shrubs are not to be cut, or its game disturbed, or its lost property to be picked up, except by the one who will announce it publicly, or is its green grass to be uprooted or cut.’ Al-’Abbas said: ‘Messenger of Allah (ﷺ)! Except Idhkhir.” And he said something that meant: “Except Idhkhir.” (Sahih)