Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: The Building Of The Kabah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2900.
حضرت عائشہؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”کیا تجھے علم نہیں کہ جب تیری قوم (قریش) نے کعبے کی تعمیر کی تو حضرت ابراہیم ؑ کی بنیادوں سے کمی کر دی؟“ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ اسے حضرت ابراہیم ؑ کی بنیادوں کے مطابق تعمیر نہیں فرمائیں گے؟ آپ نے فرمایا: ”اگر تیری قوم کا زمانہ کفر تازہ نہ ہوتا (تو میں تعمیر کر دیتا)۔“ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ اگر حضرت عائشہؓ نے یہ بات رسول اللہﷺ سے سنی ہے تو میرا خیال ہے کہ حطیم کی طرف سے دو کونوں کا استلام چھوڑنا اسی بنا پر ہوگا کہ بیت اللہ حضرت ابراہیم ؑ کی بنیادوں پر نہیں بنایا گیا۔
تشریح:
(1) ”کعبہ“ تقریباً چوکور اور بلند عمارت کو کہا جاتا ہے۔ بیت اللہ بلند بھی ہے اور تقریباً مربع بھی، اس لیے اس کا نام کعبہ پڑ گیا۔ (2) ”کعبہ کی تعمیر“ عام مورخین کے نزدیک یہ تعمیر بعثت سے صرف پانچ سال پہلے ہوئی اور عام لوگوں کے ساتھ اپ نے بھی اس کی تعمیر میں حصہ لیا بلکہ حجر اسود کی تنصیب آپ کے مبارک ہاتھوں ہی سے ہوئی اور قریش مکہ خون ریزی سے بچ گئے۔ (3) ”کمی کر دی“ کیونکہ ان کے پاس پاک اور حلال مال کی کمی تھی۔ پوری تعمیر زیادہ اخراجات کی متقاضی تھی اسی لیے انھوں نے شمالی جانب سے تقریباً ایک تہائی حصہ چھوڑ دیا۔ اس حصے کو حجر یا حطیم کہا جاتا ہے۔ اس وقت اس حصے پر کندھوں تک دیوار بنی ہوئی ہے۔ اس حصے کے باہر رہنے کا فائدہ یہ ہوگیا کہ جو شخص بیت اللہ کے اندر نماز پڑھنا چاہے، وہ اس حصے میں نماز پڑھ لے ورنہ ہر کسی کے لیے بیت اللہ کھولنا ناممکن ہے۔ (4) ”زمانہ کفر تازہ نہ ہوتا“ رسول اللہﷺ کو خطرہ تھا کہ اگر کعبے کو گرا کر تعمیر کیا گیا تو عرب میں ہر طرف شور مچ جائے گا کہ نئے نبی نے کعبہ ڈھا دیا ہے۔ تعمیر کو کوئی نہیں دیکھے گا۔ نیز وہ لوگ شاید اس بات پر یقین بھی نہ کرتے کہ واقعتا یہ عمارت ناقص ہے، بلکہ وہ اسے ”ہر کہ آمد عمارت نو ساخت“ پر محمول کرتے۔ بعد میں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے بھی تعمیر نو نہ کی۔ انھیں رسول اللہﷺ کی خواہش کا علم نہ ہو سکا، یا انھوں نے بھی اسے مصلحت کے خلاف ہی سمجھا۔ بعد میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور اقتدار میں کعبے کی عمارت رسول اللہﷺ کی خواہش کے مطابق تیار کر دی مگر تھوڑے عرصے بعد ہی حجاج نے خلیفہ عبدالملک کے حکم پر دوبارہ پہلی عمارت بحال کر دی۔ اور اب تک وہ اسی حالت پر قائم ہے اور ان شاء اللہ قرب قیامت تک رہے گی۔ (5) ”اگر حضرت عائشہؓ نے … الخ“ اس جملے کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو حضرت عائشہؓ کے سماع میں شک ہے، بلکہ یہ کلام کا ایک انداز ہے۔ مطلب یہ ہے کہ چونکہ حضرت عائشہؓ نے بات نقل فرمائی ہے، لہٰذا بیت اللہ کے حطیم کی جانب والے دو کونوں کو نہ چھونے کی ایک معقول وجہ یہ بن سکتی ہے۔ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ اندازہ ٹھیک ہے۔ چونکہ یہ دونوں کونے اپنی اصل جگہ پر نہیں، لہٰذا طواف کے دوران میں ان کونوں کو ہاتھ نہیں لگایا جاتا، جبکہ رکن یمانی کو ہاتھ لگایا جاتا ہے اور حجر اسود (جو عین مشرقی کونے میں ہے) کو منہ یا ہاتھ لگانا مسنون ہے۔ ہاتھ نہ لگ سکے تو اشارہ بھی کافی ہے۔ (6) فتنے اور فساد کے خطرے کے باعث کوئی مباح کام وقتی طور پر ترک کیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم
حضرت عائشہؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”کیا تجھے علم نہیں کہ جب تیری قوم (قریش) نے کعبے کی تعمیر کی تو حضرت ابراہیم ؑ کی بنیادوں سے کمی کر دی؟“ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ اسے حضرت ابراہیم ؑ کی بنیادوں کے مطابق تعمیر نہیں فرمائیں گے؟ آپ نے فرمایا: ”اگر تیری قوم کا زمانہ کفر تازہ نہ ہوتا (تو میں تعمیر کر دیتا)۔“ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ اگر حضرت عائشہؓ نے یہ بات رسول اللہﷺ سے سنی ہے تو میرا خیال ہے کہ حطیم کی طرف سے دو کونوں کا استلام چھوڑنا اسی بنا پر ہوگا کہ بیت اللہ حضرت ابراہیم ؑ کی بنیادوں پر نہیں بنایا گیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ”کعبہ“ تقریباً چوکور اور بلند عمارت کو کہا جاتا ہے۔ بیت اللہ بلند بھی ہے اور تقریباً مربع بھی، اس لیے اس کا نام کعبہ پڑ گیا۔ (2) ”کعبہ کی تعمیر“ عام مورخین کے نزدیک یہ تعمیر بعثت سے صرف پانچ سال پہلے ہوئی اور عام لوگوں کے ساتھ اپ نے بھی اس کی تعمیر میں حصہ لیا بلکہ حجر اسود کی تنصیب آپ کے مبارک ہاتھوں ہی سے ہوئی اور قریش مکہ خون ریزی سے بچ گئے۔ (3) ”کمی کر دی“ کیونکہ ان کے پاس پاک اور حلال مال کی کمی تھی۔ پوری تعمیر زیادہ اخراجات کی متقاضی تھی اسی لیے انھوں نے شمالی جانب سے تقریباً ایک تہائی حصہ چھوڑ دیا۔ اس حصے کو حجر یا حطیم کہا جاتا ہے۔ اس وقت اس حصے پر کندھوں تک دیوار بنی ہوئی ہے۔ اس حصے کے باہر رہنے کا فائدہ یہ ہوگیا کہ جو شخص بیت اللہ کے اندر نماز پڑھنا چاہے، وہ اس حصے میں نماز پڑھ لے ورنہ ہر کسی کے لیے بیت اللہ کھولنا ناممکن ہے۔ (4) ”زمانہ کفر تازہ نہ ہوتا“ رسول اللہﷺ کو خطرہ تھا کہ اگر کعبے کو گرا کر تعمیر کیا گیا تو عرب میں ہر طرف شور مچ جائے گا کہ نئے نبی نے کعبہ ڈھا دیا ہے۔ تعمیر کو کوئی نہیں دیکھے گا۔ نیز وہ لوگ شاید اس بات پر یقین بھی نہ کرتے کہ واقعتا یہ عمارت ناقص ہے، بلکہ وہ اسے ”ہر کہ آمد عمارت نو ساخت“ پر محمول کرتے۔ بعد میں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے بھی تعمیر نو نہ کی۔ انھیں رسول اللہﷺ کی خواہش کا علم نہ ہو سکا، یا انھوں نے بھی اسے مصلحت کے خلاف ہی سمجھا۔ بعد میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور اقتدار میں کعبے کی عمارت رسول اللہﷺ کی خواہش کے مطابق تیار کر دی مگر تھوڑے عرصے بعد ہی حجاج نے خلیفہ عبدالملک کے حکم پر دوبارہ پہلی عمارت بحال کر دی۔ اور اب تک وہ اسی حالت پر قائم ہے اور ان شاء اللہ قرب قیامت تک رہے گی۔ (5) ”اگر حضرت عائشہؓ نے … الخ“ اس جملے کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو حضرت عائشہؓ کے سماع میں شک ہے، بلکہ یہ کلام کا ایک انداز ہے۔ مطلب یہ ہے کہ چونکہ حضرت عائشہؓ نے بات نقل فرمائی ہے، لہٰذا بیت اللہ کے حطیم کی جانب والے دو کونوں کو نہ چھونے کی ایک معقول وجہ یہ بن سکتی ہے۔ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ اندازہ ٹھیک ہے۔ چونکہ یہ دونوں کونے اپنی اصل جگہ پر نہیں، لہٰذا طواف کے دوران میں ان کونوں کو ہاتھ نہیں لگایا جاتا، جبکہ رکن یمانی کو ہاتھ لگایا جاتا ہے اور حجر اسود (جو عین مشرقی کونے میں ہے) کو منہ یا ہاتھ لگانا مسنون ہے۔ ہاتھ نہ لگ سکے تو اشارہ بھی کافی ہے۔ (6) فتنے اور فساد کے خطرے کے باعث کوئی مباح کام وقتی طور پر ترک کیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہاری قوم نے جس وقت کعبہ کو بنایا تو ان لوگوں نے ابراہیم ؑ کی بنیاد میں کمی کر دی“ تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ ابراہیم ؑ کی بنیاد پر اسے کیوں نہیں بنا دیتے؟ آپ نے فرمایا: ”اگر تمہاری قوم زمانہ کفر سے قریب نہ ہوتی“۱؎ (تو میں ایسا کر ڈالتا)۲؎ عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں: اگر عائشہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے ایسی بات سنی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کے حطیم سے قریب کے دونوں رکن (رکن شامی و عراقی) کو بوسہ نہ لینے کی وجہ یہی ہے کہ خانہ کعبہ کی (اس جانب سے) ابراہیم ؑ کی بنیاد پر تکمیل نہیں ہوئی ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی اگر وہ نئے نئے مسلمان نہ ہوئے ہوتے۔ ۲؎ : یعنی اسے گرا کر کے ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں پر اس کی تعمیر کر دیتا لیکن چونکہ ابھی اسلام ان کے دلوں میں پوری طرح راسخ نہیں ہوا ہے اس لیے ایسا کرنے سے ڈر ہے کہ وہ اسلام سے متنفر نہ ہو جائیں، اور اسے غلط اقدام سمجھیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Aishah (RA) that the Messenger of Allah (ﷺ) said: “Don’t you see that when your people (re)built the Ka’bah, they did not build it on all the foundations laid by lbrahim ؑ?” I said: “Messenger of Allah (ﷺ), why do you not rebuild it on the foundations of Ibrahim ؑ.?” He said: “Were it not for the fact that your people have recently left disbelief (I would have done so).” ‘Abdullah bin ‘Umar said: 'Aishah (RA) heard this from the Messenger of Allah (ﷺ) for I see that he would not touch the two corners facing Al-Hijr because the House was not built on the foundations of Ibrahim ؑ.”(Sahih)