Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: The Building Of The Kabah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2901.
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اگر تیری قوم (قریش) کا دور کفر تازہ نہ ہوتا تو میں بیت اللہ کی عمارت کو توڑ کر اسے حضرت ابراہیم ؑ کی بنیادوں پر تعمیر کر دیتا اور اس کا ایک دروازہ پچھلی جانب بنا دیتا کیونکہ قریش نے جب بیت اللہ تعمیر کیا تو انھوں نے اس کی عمارت کو چھوٹا کر دیا تھا۔“
تشریح:
(1) ”دروازہ پچھلی جانب“ تاکہ لوگ ایک دروازے سے داخل ہوں اور دوسری طرف سے نکلتے رہیں اور رش نہ ہو۔ نبیﷺ کی یہ خواہش بھی تھی کہ بیت اللہ کا دروازہ نیچے زمین کے برابر لگا دیا جائے۔ تاکہ سیڑھی کی ضرورت نہ رہے مگر شاید یہ مصلحت کے خلاف تھا کہ عوام الناس بیت اللہ میں داخل ہوں، لہٰذا آپ کی ان خواہشات پر عمل درآمد نہ ہو سکا، ورنہ کعبہ کی بے احترامی اور شور وغل کا شدید خطرہ تھا۔ جو شخص کعبے میں داخل ہونے کا شوق رکھتا ہو، اس کے لیے حطیم والا کھلا حصہ موجود ہے وہاں وہ اپنی خواہش پوری کر سکتا ہے، جبکہ بیت اللہ کے مقفل ہونے کی وجہ سے اس کا رعب واحترام اور دبدبہ قائم ودائم ہے۔ رسول اللہﷺ کی قبر کو مقفل رکھنے کی بھی یہی وجہ ہے کہ اس کا احترام قائم رہے، شور وغل سے بچت رہے۔ علاوہ ازیں عوام، جن کی اکثریت فسادِ عقیدہ میں مبتلا ہے، مشرکانہ اعمال سے بھی محفوظ رہے۔ باقی رہا صلاۃ وسلام کا مسئلہ، اس کے لیے اندر جانا ضروری نہیں، باہر سے بھی ممکن ہے بلکہ دنیا کے بعید ترین گوشے سے بھی سلام وصلاۃ بھیجا جا سکتا ہے کیونکہ اسے پہنچانے کے لیے فرشتے مقرر ہیں اور وہی آپ کو صلاۃ وسلام پہنچاتے ہیں، آپ خود کہیں سے بھی نہیں سنتے، قریب سے، نہ بعید سے۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اگر تیری قوم (قریش) کا دور کفر تازہ نہ ہوتا تو میں بیت اللہ کی عمارت کو توڑ کر اسے حضرت ابراہیم ؑ کی بنیادوں پر تعمیر کر دیتا اور اس کا ایک دروازہ پچھلی جانب بنا دیتا کیونکہ قریش نے جب بیت اللہ تعمیر کیا تو انھوں نے اس کی عمارت کو چھوٹا کر دیا تھا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”دروازہ پچھلی جانب“ تاکہ لوگ ایک دروازے سے داخل ہوں اور دوسری طرف سے نکلتے رہیں اور رش نہ ہو۔ نبیﷺ کی یہ خواہش بھی تھی کہ بیت اللہ کا دروازہ نیچے زمین کے برابر لگا دیا جائے۔ تاکہ سیڑھی کی ضرورت نہ رہے مگر شاید یہ مصلحت کے خلاف تھا کہ عوام الناس بیت اللہ میں داخل ہوں، لہٰذا آپ کی ان خواہشات پر عمل درآمد نہ ہو سکا، ورنہ کعبہ کی بے احترامی اور شور وغل کا شدید خطرہ تھا۔ جو شخص کعبے میں داخل ہونے کا شوق رکھتا ہو، اس کے لیے حطیم والا کھلا حصہ موجود ہے وہاں وہ اپنی خواہش پوری کر سکتا ہے، جبکہ بیت اللہ کے مقفل ہونے کی وجہ سے اس کا رعب واحترام اور دبدبہ قائم ودائم ہے۔ رسول اللہﷺ کی قبر کو مقفل رکھنے کی بھی یہی وجہ ہے کہ اس کا احترام قائم رہے، شور وغل سے بچت رہے۔ علاوہ ازیں عوام، جن کی اکثریت فسادِ عقیدہ میں مبتلا ہے، مشرکانہ اعمال سے بھی محفوظ رہے۔ باقی رہا صلاۃ وسلام کا مسئلہ، اس کے لیے اندر جانا ضروری نہیں، باہر سے بھی ممکن ہے بلکہ دنیا کے بعید ترین گوشے سے بھی سلام وصلاۃ بھیجا جا سکتا ہے کیونکہ اسے پہنچانے کے لیے فرشتے مقرر ہیں اور وہی آپ کو صلاۃ وسلام پہنچاتے ہیں، آپ خود کہیں سے بھی نہیں سنتے، قریب سے، نہ بعید سے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تمہاری قوم کا زمانہ کفر سے قریب نہ ہوتا تو میں خانہ کعبہ کو ڈھا دیتا، اور اسے (پھر سے) ابراہیم ؑ کی بنیاد پر تعمیر کرتا، اور سامنے کے مقابل میں پیچھے بھی ایک دروازہ کر دیتا، قریش نے جب خانہ کعبہ کی تعمیر کی تو اسے گھٹا دیا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Aishah (RA) said: “The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘Were it not for the fact that your people have recently left disbelief, I would have knocked down the House and rebuilt it on the foundations of Ibrahim ؑ, and I would have given it a back door. For when the Quraish built the House, they made it too small.” (Sahih)