مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2910.
حضرت (عبداللہ) ابن زبیر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہؓ کو فرماتے سنا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اگر یہ بات نہ ہوتی کہ لوگوں (نو مسلموں) کا دور کفر ابھی تازہ ہے اور میرے پاس اتنے اخراجات بھی نہیں جس سے میں بیت اللہ کی تعمیر اصل بنیادوں پر کر سکوں تو میں حجر میں سے پانچ ہاتھ بیت اللہ میں داخل کر دیتا اور اس کے دو دروازے بناتا۔ ایک سے لوگ داخل ہوں، دوسرے سے نکلیں۔“
تشریح:
(1) حجر کے معنیٰ ہیں: وہ جگہ جس کے اردگرد دیوار بنا دی گئی ہو۔ بیت اللہ کی شمالی جانب تقریباً چار فٹ اونچی دیوار بنا دی گئی ہے۔ اسے حجر کہتے ہیں۔ اسی کو حطیم بھی کہا جاتا ہے۔ حطیم کے معنیٰ ہیں: جدا کیا گیا کیونکہ یہ حصہ بیت اللہ سے جدا کیا گیا ہے، لہٰذا اسے حطیم بھی کہتے ہیں۔ (2) ”اتنے اخراجات“ گویا کعبے کی تعمیر نو میں دو رکاوٹیں تھیں۔ بعد میں یہ دونوں رکاوٹیں ختم ہوگئیں مگر خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے کعبے کو جوں کا توں ہی رہنے دیا۔ (3) ’’پانچ ہاتھ‘‘ گویا حجر میں سے صرف پانچ ہاتھ جگہ بیت اللہ کی ہے۔ بعض روایات میں چھ اور سات ہاتھ کا ذکر بھی ہے۔ بہرحال یہ تمام روایات صحیح ہیں۔ بعض علماء کے نزدیک پورا حجر بیت اللہ میں داخل ہے۔ لیکن یہ موقف درست نہیں۔ واللہ أعلم
حضرت (عبداللہ) ابن زبیر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہؓ کو فرماتے سنا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اگر یہ بات نہ ہوتی کہ لوگوں (نو مسلموں) کا دور کفر ابھی تازہ ہے اور میرے پاس اتنے اخراجات بھی نہیں جس سے میں بیت اللہ کی تعمیر اصل بنیادوں پر کر سکوں تو میں حجر میں سے پانچ ہاتھ بیت اللہ میں داخل کر دیتا اور اس کے دو دروازے بناتا۔ ایک سے لوگ داخل ہوں، دوسرے سے نکلیں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) حجر کے معنیٰ ہیں: وہ جگہ جس کے اردگرد دیوار بنا دی گئی ہو۔ بیت اللہ کی شمالی جانب تقریباً چار فٹ اونچی دیوار بنا دی گئی ہے۔ اسے حجر کہتے ہیں۔ اسی کو حطیم بھی کہا جاتا ہے۔ حطیم کے معنیٰ ہیں: جدا کیا گیا کیونکہ یہ حصہ بیت اللہ سے جدا کیا گیا ہے، لہٰذا اسے حطیم بھی کہتے ہیں۔ (2) ”اتنے اخراجات“ گویا کعبے کی تعمیر نو میں دو رکاوٹیں تھیں۔ بعد میں یہ دونوں رکاوٹیں ختم ہوگئیں مگر خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے کعبے کو جوں کا توں ہی رہنے دیا۔ (3) ’’پانچ ہاتھ‘‘ گویا حجر میں سے صرف پانچ ہاتھ جگہ بیت اللہ کی ہے۔ بعض روایات میں چھ اور سات ہاتھ کا ذکر بھی ہے۔ بہرحال یہ تمام روایات صحیح ہیں۔ بعض علماء کے نزدیک پورا حجر بیت اللہ میں داخل ہے۔ لیکن یہ موقف درست نہیں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ ؓ کو کہتے سنا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”اگر لوگوں کا زمانہ کفر سے قریب نہ ہوتا اور میرے پاس اسے ٹھوس اور مستحکم بنانے کے لیے اخراجات کی کمی نہ ہوتی تو میں حطیم میں سے پانچ ہاتھ خانہ کعبہ میں ضرور شامل کر دیتا اور اس میں ایک دروازہ بنا دیتا جس سے لوگ اندر جاتے اور ایک دروازہ جس سے لوگ باہر آتے۔“
حدیث حاشیہ:
w
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Aishah (RA) said: “The Prophet (ﷺ) said: ‘Were it not for the fact that the people have recently left disbelief, and that I do not have enough funds to enable me to build it, I would have incorporated five cubits of the Hijr in it, and given it a door through which the people could enter, and another door through which they could exit.” (Sahih)