Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: As-Safa And Al-Marwah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2967.
حضرت عروہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہؓ کے سامنے یہ آیت پڑھی: ﴿فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا﴾ ”اس (حاجی اور معتمر) پر کوئی حرج نہیں کہ وہ صفا مروہ کے درمیان چکر لگائے۔“ میں نے (اس آیت کی روشنی میں) کہا: مجھے تو کوئی پرواہ نہیں اگر میں ان کے درمیان چکر نہ لگاؤں۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: تو نے بہت غلط استدلال کیا۔ اصل بات یہ تھی کہ جاہلیت والے کچھ لوگ صفا اور مروہ کے درمیان چکر نہیں لگاتے تھے۔ جب اسلام (کا دور) آیا اور قران کی یہ آیت اتری: ﴿إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ…﴾ ”صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ نشانات ہیں… الخ“ تو رسول اللہﷺ نے ان کے چکر لگائے اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ چکر لگائے لہٰذا یہ سنت ہے۔
تشریح:
(1) حضرت عروہ نے آیت کے ظاہری الفاظ سے یہ سمجھا کہ سعی کو ترک کرنا بھی جائز ہے اور یہ کوئی ضروری چیز نہیں لیکن شاید وہ آیت کے سیاق وسباق اور اس کے ابتدائی الفاظ ﴿إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ﴾ (البقرة: ۲: ۱۵۸) سے غافل رہے کیونکہ اگر یہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ شعائر ہیں تو ان سے روگردانی کیسے ممکن ہے؟ حضرت عائشہؓ جو انتہائی صاحب بصیرت خاتون تھیں اور رسول اللہﷺ سے براہ راست فیض یافتہ تھیں، اس اہم نکتے سے کیسے غافل ہو سکتی تھیں، نیز کسی بھی آیت کا مفہوم رسول اللہﷺ کے طرز عمل سے الگ کر کے نہیں سمجھا جا سکتا ورنہ گمراہی کا خدشہ ہے۔ جو کام رسول اللہﷺ نے تمام عمروں اور حج میں پابندی سے کیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی ہر عمرہ وحج میں اسے پابندی سے کیا، وہ غیر ضروری کیسے ہو سکتاہے؟ باقی رہا ﴿لَا جُنَاحَ﴾”کوئی حرج نہیں“ کا لفظ تو یہ دراصل ان لوگوں کو سمجھانے کے لیے ہے جو صفا اور مروہ کے طواف کو کافروں کے رسم ورواج پر محمل کرتے تھے کیونکہ ان دونوں پر انھوں نے بت رکھے ہوئے تھے لیکن کسی کی غلطی سے اصل حقیقت تو متروک نہیں ہو سکتی تھی، اس لیے حکم دیا گیا کہ بتوں سے پاک کر کے ان کا طواف کیا جائے کیونکہ ان کا طواف قدیم شرعی حکم ہے۔ (2) ”یہ سنت ہے“ یہاں سنت فرض کے مقابلے میں نہیں کہ اس کا کرنا ضروری نہیں کیونکہ اسی مفہوم کا تو حضرت عائشہؓ رد فرما رہی ہیں، بلکہ یہاں سنت سے مراد نبیﷺ کا جاری کردہ طریقہ ہے جس کی پابندی ضروری ہے۔ فرض، سنت، واجب وغیرہ کے موجودہ مفہوم بعد کی اصطلاحات ہیں۔ بعض روایات میں صراحت ہے کہ نبیﷺ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کر رہے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرما رہے تھے: [اسعوافإنَّ اللَّهَ كتبَ عليْكمُ السَّعيَ ](مسند احمد: ۶/ ۴۲۱)”تم سعی کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سعی کو تم پر فرض کر دیا ہے۔“ اس لیے امام شافعی رحمہ اللہ نے صفا مروہ کی سعی کو حج و عمرے کا رکن ٹھہرایا ہے۔ جس سے رہ جائے، وہ دوبارہ حج و عمرہ کرے، البتہ احناف اسے واجب قرار دیتے ہیں جسے قصداً تو نہیں چھوڑا جا سکتا اگر بھولے سے یا ناواقفیت سے رہ جائے، پھر قضا ممکن ہو تو قضا دے ورنہ ایک جانور قربان کرے، لیکن راجح بات یہی ہے کہ سعی بین الصفا والمروہ حج کا ایسا رکن ہے کہ اگر وہ رہ جائے تو اس کی تلافی ایک دم (جانور قربان کرنے) سے نہیں ہوگی، بلکہ اسے حج دوبارہ کرنا پڑے گا۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: (فقه السنة، للسید سابق: ۲/ ۲۶۴- ۲۶۷)
حضرت عروہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہؓ کے سامنے یہ آیت پڑھی: ﴿فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا﴾ ”اس (حاجی اور معتمر) پر کوئی حرج نہیں کہ وہ صفا مروہ کے درمیان چکر لگائے۔“ میں نے (اس آیت کی روشنی میں) کہا: مجھے تو کوئی پرواہ نہیں اگر میں ان کے درمیان چکر نہ لگاؤں۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: تو نے بہت غلط استدلال کیا۔ اصل بات یہ تھی کہ جاہلیت والے کچھ لوگ صفا اور مروہ کے درمیان چکر نہیں لگاتے تھے۔ جب اسلام (کا دور) آیا اور قران کی یہ آیت اتری: ﴿إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ…﴾ ”صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ نشانات ہیں… الخ“ تو رسول اللہﷺ نے ان کے چکر لگائے اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ چکر لگائے لہٰذا یہ سنت ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت عروہ نے آیت کے ظاہری الفاظ سے یہ سمجھا کہ سعی کو ترک کرنا بھی جائز ہے اور یہ کوئی ضروری چیز نہیں لیکن شاید وہ آیت کے سیاق وسباق اور اس کے ابتدائی الفاظ ﴿إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ﴾ (البقرة: ۲: ۱۵۸) سے غافل رہے کیونکہ اگر یہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ شعائر ہیں تو ان سے روگردانی کیسے ممکن ہے؟ حضرت عائشہؓ جو انتہائی صاحب بصیرت خاتون تھیں اور رسول اللہﷺ سے براہ راست فیض یافتہ تھیں، اس اہم نکتے سے کیسے غافل ہو سکتی تھیں، نیز کسی بھی آیت کا مفہوم رسول اللہﷺ کے طرز عمل سے الگ کر کے نہیں سمجھا جا سکتا ورنہ گمراہی کا خدشہ ہے۔ جو کام رسول اللہﷺ نے تمام عمروں اور حج میں پابندی سے کیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی ہر عمرہ وحج میں اسے پابندی سے کیا، وہ غیر ضروری کیسے ہو سکتاہے؟ باقی رہا ﴿لَا جُنَاحَ﴾”کوئی حرج نہیں“ کا لفظ تو یہ دراصل ان لوگوں کو سمجھانے کے لیے ہے جو صفا اور مروہ کے طواف کو کافروں کے رسم ورواج پر محمل کرتے تھے کیونکہ ان دونوں پر انھوں نے بت رکھے ہوئے تھے لیکن کسی کی غلطی سے اصل حقیقت تو متروک نہیں ہو سکتی تھی، اس لیے حکم دیا گیا کہ بتوں سے پاک کر کے ان کا طواف کیا جائے کیونکہ ان کا طواف قدیم شرعی حکم ہے۔ (2) ”یہ سنت ہے“ یہاں سنت فرض کے مقابلے میں نہیں کہ اس کا کرنا ضروری نہیں کیونکہ اسی مفہوم کا تو حضرت عائشہؓ رد فرما رہی ہیں، بلکہ یہاں سنت سے مراد نبیﷺ کا جاری کردہ طریقہ ہے جس کی پابندی ضروری ہے۔ فرض، سنت، واجب وغیرہ کے موجودہ مفہوم بعد کی اصطلاحات ہیں۔ بعض روایات میں صراحت ہے کہ نبیﷺ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کر رہے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرما رہے تھے: [اسعوافإنَّ اللَّهَ كتبَ عليْكمُ السَّعيَ ](مسند احمد: ۶/ ۴۲۱)”تم سعی کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سعی کو تم پر فرض کر دیا ہے۔“ اس لیے امام شافعی رحمہ اللہ نے صفا مروہ کی سعی کو حج و عمرے کا رکن ٹھہرایا ہے۔ جس سے رہ جائے، وہ دوبارہ حج و عمرہ کرے، البتہ احناف اسے واجب قرار دیتے ہیں جسے قصداً تو نہیں چھوڑا جا سکتا اگر بھولے سے یا ناواقفیت سے رہ جائے، پھر قضا ممکن ہو تو قضا دے ورنہ ایک جانور قربان کرے، لیکن راجح بات یہی ہے کہ سعی بین الصفا والمروہ حج کا ایسا رکن ہے کہ اگر وہ رہ جائے تو اس کی تلافی ایک دم (جانور قربان کرنے) سے نہیں ہوگی، بلکہ اسے حج دوبارہ کرنا پڑے گا۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: (فقه السنة، للسید سابق: ۲/ ۲۶۴- ۲۶۷)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عروہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ ؓ کے سامنے آیت کریمہ : «فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا» پڑھی اور کہا: میں صفا و مروہ کے درمیان نہ پھروں، تو مجھے کوئی پرواہ نہیں،۱؎ تو انہوں نے کہا: تم نے کتنی بری بات کہی ہے (صحیح یہ ہے) کہ لوگ ایام جاہلیت میں صفا و مروہ کے درمیان طواف نہیں کرتے تھے (بلکہ اسے گناہ سمجھتے تھے) تو جب اسلام آیا، اور قرآن اترا، اور یہ آیت «فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا» اتری تو رسول اللہ ﷺ نے سعی کی، اور آپ کے ساتھ ہم نے بھی کی، تو یہی سنت ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے: «فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا»۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that ‘Urwah said: “I recited to 'Aishah (RA): ‘So it is not a sin on him who performs Hajj or Umrah (pilgrimage) of the House to perform the going (Tawaf) between them (As-Safa and Al-Marwah).’ “I said: ‘I do not care if I do not go between them?’ She said: ‘What a bad thing you have said!’ People at the time of the Jahili used not to go between them, but when Islam came and the Qur’an was revealed: ‘Verily, As-Safa and Al-Marwah are of the symbols of Allah,’ the Messenger of Allah (ﷺ) went between them, and we did that with him, and thus it became part of Hajj.” (Sahih)