باب: منیٰ کی فضیلت کے بارے میں کیا ذکر کیا گیا ہے؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: What Was Mentioned Concerning Mina)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2995.
حضرت عمران انصاری سے روایت ہے کہ میں مکہ مکرمہ کے راستے میں ایک درخت کے نیچے اترا ہوا تھا کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ راستے سے ہٹ کر میرے پاس آئے اور فرمانے لگے: اس درخت کے نیچے کیوں اترے ہو؟ میں نے کہا: سائے کی خاطر۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرمانے لگے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”جب تو منیٰ کے دو پہاڑوں (اخشبین) کے درمیان ہو، اور آپ نے اپنا ہاتھ مشرق کی طرف بڑھایا، تو وہاں ایک وادی ہے جسے سربہ… یا حارث (بن مسکین) کی حدیث کے مطابق، سرر… کہا جاتا ہے، اس وادی میں ایک درخت ہے جس کے نیچے ستر نبی پیدا ہوئے۔“
تشریح:
یہ روایت ضعیف ہے، تاہم یہ تو واضح ہے کہ منیٰ بھی ایک متبرک مقام ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہاں کوئی درخت تلاش کر کے نمازیں پڑھی جائیں اور اسے مرجع خلائق قرار دیا جائے۔ کیا یہ کافی نہیں کہ وہاں حاجی لوگ چار پانچ دن ٹھہرتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں، تکبیریں پڑھتے ہیں، قربانیاں کرتے ہیں وغیرہ؟ کیا یہ سب کچھ تعظیم کے لیے کافی نہیں؟ کیا ضروری ہے کہ ان سے بڑھ کر خود ساختہ تعظیم کی جائے؟ خصوصاً جب یہ خطرہ ہو کہ لوگ اس درخت کو ”معبود“ کی طرح سمجھنے لگیں گے۔ اسی بنا پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیعت رضوان والا درخت کٹوا دیا تھا، جب لوگ جوق در جوق وہاں جا کر خصوصی نمازیں پڑھنے لگے تھے۔ دیکھیے: (فتح الباری، تحت حدیث: ۴۱۶۵) خطرہ تھا کہ کہیں لوگ اس درخت کو نفع ونقصان کا مالک ہی نہ سمجھنا شروع کر دیں جیسا کہ بہت سے ”تبرکات صالحین“ کے ساتھ ہوتا ہے۔
حضرت عمران انصاری سے روایت ہے کہ میں مکہ مکرمہ کے راستے میں ایک درخت کے نیچے اترا ہوا تھا کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ راستے سے ہٹ کر میرے پاس آئے اور فرمانے لگے: اس درخت کے نیچے کیوں اترے ہو؟ میں نے کہا: سائے کی خاطر۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرمانے لگے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”جب تو منیٰ کے دو پہاڑوں (اخشبین) کے درمیان ہو، اور آپ نے اپنا ہاتھ مشرق کی طرف بڑھایا، تو وہاں ایک وادی ہے جسے سربہ… یا حارث (بن مسکین) کی حدیث کے مطابق، سرر… کہا جاتا ہے، اس وادی میں ایک درخت ہے جس کے نیچے ستر نبی پیدا ہوئے۔“
حدیث حاشیہ:
یہ روایت ضعیف ہے، تاہم یہ تو واضح ہے کہ منیٰ بھی ایک متبرک مقام ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہاں کوئی درخت تلاش کر کے نمازیں پڑھی جائیں اور اسے مرجع خلائق قرار دیا جائے۔ کیا یہ کافی نہیں کہ وہاں حاجی لوگ چار پانچ دن ٹھہرتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں، تکبیریں پڑھتے ہیں، قربانیاں کرتے ہیں وغیرہ؟ کیا یہ سب کچھ تعظیم کے لیے کافی نہیں؟ کیا ضروری ہے کہ ان سے بڑھ کر خود ساختہ تعظیم کی جائے؟ خصوصاً جب یہ خطرہ ہو کہ لوگ اس درخت کو ”معبود“ کی طرح سمجھنے لگیں گے۔ اسی بنا پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیعت رضوان والا درخت کٹوا دیا تھا، جب لوگ جوق در جوق وہاں جا کر خصوصی نمازیں پڑھنے لگے تھے۔ دیکھیے: (فتح الباری، تحت حدیث: ۴۱۶۵) خطرہ تھا کہ کہیں لوگ اس درخت کو نفع ونقصان کا مالک ہی نہ سمجھنا شروع کر دیں جیسا کہ بہت سے ”تبرکات صالحین“ کے ساتھ ہوتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمران انصاری کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر ؓ میری طرف مڑے اور میں مکہ کے راستہ میں ایک درخت کے نیچے اترا ہوا تھا، تو انہوں نے پوچھا: تم اس درخت کے نیچے کیوں اترے ہو؟ میں نے کہا: مجھے اس کے سایہ نے (کچھ دیر آرام کرنے کے لیے) اتارا ہے، تو عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ”جب تم منیٰ کے دو پہاڑوں کے بیچ ہو، آپ نے مشرق کی طرف ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا تو وہاں ایک وادی ہے جسے ”سربہ“ کہا جاتا ہے، اور حارث کی روایت میں ہے اسے ”سرربہ“ کہا جاتا ہے تو وہاں ایک درخت ہے جس کے نیچے ستر انبیاء کے نال کاٹے گئے ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Muhammad bn Imran Al-Ansari that his father said: "Abdullah bin Umar came to me when I had stopped beneath a large tree on the way to Makkah. He said: 'Why did you stop beneath this tree?' I said: 'Because of its shade.' Abdullah said: 'The Messenger of Allah (ﷺ) said: If you are between the two mountains of Mina - and he pointed with his hand toward the east - there is a valley there called As-Surrabah according to the narration of Al-Harith: Called As-Surar - in which there is large tree beneath which seventy Prophets ؑ were born." (Daif)