Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: Leaving (In The Afternoo) on The Day Of 'Arafat)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3005.
حضرت سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ خلیفہ عبدالملک بن مروان نے (امیر حج) حجاج بن یوسف کو لکھا اور حکم دیا کہ حج کے مسائل میں حضرت ابن عمر ؓ کی مخالفت نہ کرے۔ جب عرفے کا دن ہوا تو سورج ڈھلنے کے وقت حضرت ابن عمر ؓ حجاج کی طرف آئے۔ میں بھی آپ کے ساتھ تھا۔ آپ نے اس کے خیمے کے پاس آکر بلند آواز سے کہا: کدھر ہے وہ؟ حجاج باہر نکلا۔ اس نے ایک زرد رنگ میں رنگی ہوئی چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ کہنے لگا: اے ابوعبدالرحمن! کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا: اگر تو سنت پر عمل کرنا چاہتا ہے تو (خطبے اور نماز کے لیے) چل۔ اس نے کہا: اس وقت؟ آپ نے فرمایا: ہاں! اس نے کہا: میں ذرا جسم پر پانی ڈال لوں، پھر میں آپ کے پاس آتا ہوں۔ آپ اس کا انتظار کرنے لگے حتیٰ کہ وہ نکلا اور میرے اور میرے والد (حضرت ابن عمر ؓ ) کے درمیان چلنے لگا۔ میں نے کہا: اگر تم سنت پر عمل کرنا چاہتے ہو تو خطبہ مختصر کرنا اور وقوف جلدی شروع کر دینا۔ وہ حضرت ابن عمر ؓ کی طرف دیکھنے لگا تاکہ ان سے بھی اس کی تصدیق سن لے۔ جب حضرت ابن عمر ؓ نے یہ دیکھا تو فرمایا: اس نے درست کہا ہے۔
تشریح:
(1) یہ اس سال کی بات ہے جس سال حجاج نے حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو شہید کر کے مکے پر قبضہ کیا تھا۔ حج کے دن قریب تھے، لہٰذا خلیفہ وقت عبدالملک نے اسی کو امیر حج بنا دیا لیکن مسائل حج میں اسے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا پابند کر دیا۔ اور یہ چیز اسے ناگوار گزری۔ عبدالملک بہت عالم شخص تھا مگر حکومت نے اس کے علم کو دبا لیا۔ حجاج عبدالملک کا گورنر تھا مگر سخت ظالم اور صالحین کا بے ادب اور گستاخ۔ وہ بھی بڑا عالم تھا، مگر ان خرابیوں نے اسے قیامت تک کے لیے مسلمانوں اور صالحین میں بدنام اور مبغوض بنا دیا۔ اعاذنا اللہ منھا۔ (2) ”اس وقت؟“ بنو امیہ کے اس دور کے گورنر ظہر کی نماز عموماً تاخیر سے پڑھتے تھے، اس لیے اسے تعجب ہوا کہ زوال کے ساتھ ہی خطبہ اور نماز شروع کر دیے جائیں۔ (3) ”ابوعبدالرحمن“ یہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی مشہور کنیت تھی۔ عربوں میں محترم شخص کو اس کی کنیت سے پکارا جاتا تھا۔ (4) خطبے کا مختصر ہونا عقل مندی ہے مگر یہ مطلب نہیں کہ نماز سے مختصر ہو بلکہ عام خطبوں سے مختصر ہونا مراد ہے کیونکہ خطبے اور نماز کے بعد عرفے میں وقوف شروع ہوتا ہے جس میں مغرب تک اذکار، دعائیں اور استغفار ہوتے ہیں، لہٰذا خطبہ مختصر ہونے سے وقوف جلدی شروع ہوگا جو کہ مستحب ہے۔ (5) حاکم وقت دین کے معاملے میں اہل علم کی رائے پر عمل کرے گا۔ (6) شاگرد استاد کی موجودگی میں فتویٰ دے سکتا ہے۔ (7) فاجر حاکم کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے۔
حضرت سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ خلیفہ عبدالملک بن مروان نے (امیر حج) حجاج بن یوسف کو لکھا اور حکم دیا کہ حج کے مسائل میں حضرت ابن عمر ؓ کی مخالفت نہ کرے۔ جب عرفے کا دن ہوا تو سورج ڈھلنے کے وقت حضرت ابن عمر ؓ حجاج کی طرف آئے۔ میں بھی آپ کے ساتھ تھا۔ آپ نے اس کے خیمے کے پاس آکر بلند آواز سے کہا: کدھر ہے وہ؟ حجاج باہر نکلا۔ اس نے ایک زرد رنگ میں رنگی ہوئی چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ کہنے لگا: اے ابوعبدالرحمن! کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا: اگر تو سنت پر عمل کرنا چاہتا ہے تو (خطبے اور نماز کے لیے) چل۔ اس نے کہا: اس وقت؟ آپ نے فرمایا: ہاں! اس نے کہا: میں ذرا جسم پر پانی ڈال لوں، پھر میں آپ کے پاس آتا ہوں۔ آپ اس کا انتظار کرنے لگے حتیٰ کہ وہ نکلا اور میرے اور میرے والد (حضرت ابن عمر ؓ ) کے درمیان چلنے لگا۔ میں نے کہا: اگر تم سنت پر عمل کرنا چاہتے ہو تو خطبہ مختصر کرنا اور وقوف جلدی شروع کر دینا۔ وہ حضرت ابن عمر ؓ کی طرف دیکھنے لگا تاکہ ان سے بھی اس کی تصدیق سن لے۔ جب حضرت ابن عمر ؓ نے یہ دیکھا تو فرمایا: اس نے درست کہا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ اس سال کی بات ہے جس سال حجاج نے حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو شہید کر کے مکے پر قبضہ کیا تھا۔ حج کے دن قریب تھے، لہٰذا خلیفہ وقت عبدالملک نے اسی کو امیر حج بنا دیا لیکن مسائل حج میں اسے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا پابند کر دیا۔ اور یہ چیز اسے ناگوار گزری۔ عبدالملک بہت عالم شخص تھا مگر حکومت نے اس کے علم کو دبا لیا۔ حجاج عبدالملک کا گورنر تھا مگر سخت ظالم اور صالحین کا بے ادب اور گستاخ۔ وہ بھی بڑا عالم تھا، مگر ان خرابیوں نے اسے قیامت تک کے لیے مسلمانوں اور صالحین میں بدنام اور مبغوض بنا دیا۔ اعاذنا اللہ منھا۔ (2) ”اس وقت؟“ بنو امیہ کے اس دور کے گورنر ظہر کی نماز عموماً تاخیر سے پڑھتے تھے، اس لیے اسے تعجب ہوا کہ زوال کے ساتھ ہی خطبہ اور نماز شروع کر دیے جائیں۔ (3) ”ابوعبدالرحمن“ یہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی مشہور کنیت تھی۔ عربوں میں محترم شخص کو اس کی کنیت سے پکارا جاتا تھا۔ (4) خطبے کا مختصر ہونا عقل مندی ہے مگر یہ مطلب نہیں کہ نماز سے مختصر ہو بلکہ عام خطبوں سے مختصر ہونا مراد ہے کیونکہ خطبے اور نماز کے بعد عرفے میں وقوف شروع ہوتا ہے جس میں مغرب تک اذکار، دعائیں اور استغفار ہوتے ہیں، لہٰذا خطبہ مختصر ہونے سے وقوف جلدی شروع ہوگا جو کہ مستحب ہے۔ (5) حاکم وقت دین کے معاملے میں اہل علم کی رائے پر عمل کرے گا۔ (6) شاگرد استاد کی موجودگی میں فتویٰ دے سکتا ہے۔ (7) فاجر حاکم کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سالم بن عبداللہ کہتے ہیں کہ عبدالملک بن مروان نے (مکہ کے گورنر) حجاج بن یوسف کو لکھا وہ انہیں حکم دے رہے تھے کہ وہ حج کے امور میں عبداللہ بن عمر ؓ کی مخالفت نہ کریں، تو جب عرفہ کا دن آیا تو سورج ڈھلتے ہی عبداللہ بن عمر ؓ اس کے پاس آئے اور میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ اور اس خیمہ کے پاس انہوں نے آواز دی کہاں ہیں یہ، حجاج نکلے اور ان کے جسم پر کسم میں رنگی ہوئی ایک چادر تھی اس نے ان سے پوچھا: ابوعبدالرحمٰن! کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا: اگر سنت کی پیروی چاہتے ہیں تو چلئے۔ اس نے کہا: ابھی سے؟ انہوں نے کہا: ہاں، حجاج نے کہا: (اچھا) ذرا میں نہا لوں، پھر آپ کے پاس آتا ہوں۔ انہوں نے ان کا انتظار کیا، یہاں تک کہ وہ نکلے تو وہ میرے اور میرے والد کے درمیان ہو کر چلے۔ تو میں نے کہا: اگر آپ سنت کی پیروی چاہتے ہیں تو خطبہ مختصر دیں اور عرفات میں ٹھہرنے میں جلدی کریں۔ تو وہ ابن عمر ؓ کی طرف دیکھنے لگے کہ وہ ان سے اس بارے میں سنے۔ تو جب ابن عمر ؓ نے یہ دیکھا تو انہوں نے کہا: اس نے سچ کہا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Salim Bin Abdullah said: "Abdul Malik bin Marwan wrote to Al-Hajjaj bin Yusuf telling him not to go against Ibn Umar with regard to the Hajj. On the day of Arafat, Ibn Umar came to him when the sun had passed its zenith, and I was with him, and shouted near his cotton tent: 'Where is he?' Al-Hajjaj came out to him, wearing a wrap dyed with safflower. He said: 'What is the matter, O Abu Abdur Rahman?' He said: 'We have to move on if you want to follow Sunnah.' He said to him: 'At this hour?' He said: 'Yes.' He said: 'I will pour some water over my self (have a bath) then I will come out to you.' So he waited until he came, then he walked between my father and me, I said: 'If you want to follow the Sunnah, then deliver a short Khutbah and hasten to stand (in Arafat).' He started to look at Ibn Umar so that he could hear that, and when Ibn Umar noticed that he said: 'He is speaking the truth.