حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ لبیک پڑھتے رہے حتیٰ کہ آپ نے جمرے کو رمی کی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ لبیک پکارتے رہے یہاں تک کہ آپ نے جمرہ کی رمی کی۔
حدیث حاشیہ:
جمہور اہل علم کے قول کے مطابق جمرہ عقبہ کی رمی تک لبیک کہنا چاہیے، یعنی پہلی کنکری کے ساتھ ہی لبیک روک دیا جائے اور تکبیر شروع کر دی جائے۔ ان کی دلیل مذکورہ حدیث ہے۔ امام احمد اور بعض اصحاب شافعی رحمہم اللہ کا موقف یہ ہے کہ رمی مکمل ہونے تک تلبیہ پکارا جائے، جونہی آخری کنکری ماری جائے، تلبیہ بند کر دیا جائے۔ ازروئے دلیل یہی موقف راجح ہے۔ جمہور کی دلیل میں ابہام ہے، جبکہ مؤخر الذکر موقف کے حاملین کی دلیل صریح اور دو ٹوک ہے۔ ابن خزیمہ میں بواسطہ ابن عباس فضل بن عباس ؓ سے منقول ہے، وہ فرماتے ہیں: [أفضتُ معَ النَّبيِّ ﷺ في عَرفاتٍ، فلَم يزَل يلبِّي حتّى رمى جمرةَ العقبةِ يُكَبِّرُ معَكلِّحصاةٍ، ثمَّ قطعَ التَّلبيةَ معَ آخرِ حصاةٍ]”میں نبی اکرمﷺ کے ساتھ ہی عرفات سے واپس لوٹا، آپ بدستور، جمرہ عقبہ کی رمی تک، تلبیہ پکارتے رہے، آپ ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے تھے، پھر آپﷺ نے آخری کنکری کے ساتھ تلبیہ موقوف کر دیا ہے۔“ اس کے بعد امام ابن خزیمہ ؓ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے اور دیگر مبہم روایات کی تفسیر کرتی ہے اور آپﷺ کے قول ”حتّى رَمى جَمْرةَ العَقَبةِ“ سے مراد یہ ہے کہ یہاں تک کہ آپ نے رمی کی تکمیل فرما لی۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (فتح الباري: ۳/ ۵۳۳) بہرحال آخری کنکری مارنے تک تلبیہ کہنے کی ممکنہ صورت یہ ہو سکتی ہے کہ کنکری کے ساتھ تکبیر کہہ کر ساتھ تلبیہ بھی پکار لیا جائے۔ اگر صرف تکبیر ہی پر اکتفا کیا جائے اور اس وقت تلبیہ نہ بھی کہا جائے تو جائز ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn ‘Abbas that the Messenger of Allah (ﷺ) recited the Talbiyah until he stoned the Jamrat. (Sahih)