باب: جمروں کی طرف سوار ہو کر جانا اور محرم کا سایہ حاصل کرنا
)
Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: Rading To The Jimar and Muhrim Seeking Shade)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3060.
حضرت ام حصینؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبیﷺ کے حج والے سال حج کیا۔ میں نے دیکھا کہ حضرت بلال ؓ آپ کی سواری کی مہار پکڑ کر آگے آگے چل رہے ہیں اور حضرت اسامہ بن زید ؓ نے آپ پر کپڑا تانا ہوا ہے تاکہ دھوپ سے سایہ ہو سکے۔ اس وقت آپ احرام سے تھے حتیٰ کہ آپ نے جمرۂ عقبہ کو رمی کی، پھر آپ نے لوگوں سے خطاب فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی اور بہت سی باتیں ارشاد فرمائیں۔
تشریح:
(1) پیچھے بارہا ذکر ہو چکا ہے کہ نبی اکرمﷺ نے مکمل حجۃ الوداع سواری پر ادا فرمایا تاکہ لوگ آپ کو دیکھ کر حج کے مسائل سیکھ سکیں، نیز لوگ جی بھر کر آپ کا دیدار کر سکیں۔ لوگ دور دور سے آئے تھے۔ ویسے بھی جمروں کی طرف سوار ہو کر جانے میں کوئی قباحت نہیں، پھر آپ تو مزدلفہ سے تشریف لا رہے تھے۔ (2) ”جمرۂ عقبہ“ یہ جمرہ آخری ہے اگر منیٰ سے مکہ کو جائیں۔ یہ جمرہ حقیقتاً منیٰ سے خارج ہے مگر متصل ہے۔ اور یہی وہ جمرہ ہے جہاں اہل مدینہ نے رسول اللہﷺ کے دست مبارک پر بیعت کی تھی۔ پہلی بھی، دوسری بھی۔ یوم نحر، یعنی ۱۰ ذوالحجہ کو صرف اسی جمرے کی رمی کی جاتی ہے۔ اسے بڑا جمرہ بھی کہا جاتا ہے۔ لوگ عرف عام میں جمرات کو شیطان بھی کہہ لیتے ہیں لیکن اس کی بجائے اگر یہ کہہ لیا جائے کہ یہ جمرات شیطان ہیں نہ یہاں شیطان رہتا ہے بلکہ انھیں ان مقامات کے تعین یا نشانی کے طور پر قائم کیا گیا جہاں اسے کنکریاں پڑی تھیں کیونکہ جب شیطان نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان کے عزم مصمم سے روکنے کی کوشش کی تھی تو آپ نے اسے کنکریاں مار کر رد کر دیا تھا۔ رمی اسی کی یادگار ہے۔ صحیح حدیث سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا: جب ابراہیم خلیل اللہ عبادات حج کی ادائیگی کے لیے آئے تو جمرہ عقبہ کے پاس شیطان ان کے سامنے آیا۔ انھوں نے اسے سات کنکریاں ماریں یہاں تک کہ وہ زمین میں دھنس گیا۔ پھر دوسرے جمرے کے پاس رونما ہوا، انھوں نے پھر اسے سات کنکریاں ماریں، حتیٰ کہ وہ زمین میں دھنس گیا، پھر وہ تیسرے جمرے کے پاس ان کے سامنے آگیا، انھوں نے پھر اسے سات کنکریاں مار دیں یہاں تک کہ وہ دھنس گیا۔ راوی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (اب تم گویا) شیطان کو پتھر مارتے ہو اور اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی ملت کی پیروی کرتے ہو۔ دیکھیے: (مسند احمد: ۱/ ۲۹۷، ۲۹۸، وصحیح الترغیب والترهیب للألباني، رقم الحدیث: ۱۱۵۶) (3) محرم خیمے یا چھتری وغیرہ کا سایہ حاصل کر سکتا ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وقد أخرجه بإسناد المصنف
ومتنه) .
إسناده: حدثنا أحمد بن حنبل: ثنا محمد بن سلمة عن أبي عبد الرحيم
زيد بن أبي أنَيْسَةَ عن يحيى بن حُصَيْنٍ عن أم الحصين.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم؛ وأبو عبد الرحيم: اسمه خالد بن أبي
يزيد الحَرَّاني، وهو خال محمد بن سلمة.
والحديث أخرجه مسلم (4/80) ... بإسناد المصنف ومتنه.
وهو في " المسند" (6/402) .
وعنه: أخرجه البيهقي أيضاً (5/69) .
ثم أخرجه مسلم من طريق أخرى عن زيد بن أبي أنيسة.
وأخرجه النسائي (2/49- 50) من طريق أخرى عن محمد بن سلمة... به.
وانظر " الإرواء " (1018) .
حضرت ام حصینؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبیﷺ کے حج والے سال حج کیا۔ میں نے دیکھا کہ حضرت بلال ؓ آپ کی سواری کی مہار پکڑ کر آگے آگے چل رہے ہیں اور حضرت اسامہ بن زید ؓ نے آپ پر کپڑا تانا ہوا ہے تاکہ دھوپ سے سایہ ہو سکے۔ اس وقت آپ احرام سے تھے حتیٰ کہ آپ نے جمرۂ عقبہ کو رمی کی، پھر آپ نے لوگوں سے خطاب فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی اور بہت سی باتیں ارشاد فرمائیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) پیچھے بارہا ذکر ہو چکا ہے کہ نبی اکرمﷺ نے مکمل حجۃ الوداع سواری پر ادا فرمایا تاکہ لوگ آپ کو دیکھ کر حج کے مسائل سیکھ سکیں، نیز لوگ جی بھر کر آپ کا دیدار کر سکیں۔ لوگ دور دور سے آئے تھے۔ ویسے بھی جمروں کی طرف سوار ہو کر جانے میں کوئی قباحت نہیں، پھر آپ تو مزدلفہ سے تشریف لا رہے تھے۔ (2) ”جمرۂ عقبہ“ یہ جمرہ آخری ہے اگر منیٰ سے مکہ کو جائیں۔ یہ جمرہ حقیقتاً منیٰ سے خارج ہے مگر متصل ہے۔ اور یہی وہ جمرہ ہے جہاں اہل مدینہ نے رسول اللہﷺ کے دست مبارک پر بیعت کی تھی۔ پہلی بھی، دوسری بھی۔ یوم نحر، یعنی ۱۰ ذوالحجہ کو صرف اسی جمرے کی رمی کی جاتی ہے۔ اسے بڑا جمرہ بھی کہا جاتا ہے۔ لوگ عرف عام میں جمرات کو شیطان بھی کہہ لیتے ہیں لیکن اس کی بجائے اگر یہ کہہ لیا جائے کہ یہ جمرات شیطان ہیں نہ یہاں شیطان رہتا ہے بلکہ انھیں ان مقامات کے تعین یا نشانی کے طور پر قائم کیا گیا جہاں اسے کنکریاں پڑی تھیں کیونکہ جب شیطان نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان کے عزم مصمم سے روکنے کی کوشش کی تھی تو آپ نے اسے کنکریاں مار کر رد کر دیا تھا۔ رمی اسی کی یادگار ہے۔ صحیح حدیث سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا: جب ابراہیم خلیل اللہ عبادات حج کی ادائیگی کے لیے آئے تو جمرہ عقبہ کے پاس شیطان ان کے سامنے آیا۔ انھوں نے اسے سات کنکریاں ماریں یہاں تک کہ وہ زمین میں دھنس گیا۔ پھر دوسرے جمرے کے پاس رونما ہوا، انھوں نے پھر اسے سات کنکریاں ماریں، حتیٰ کہ وہ زمین میں دھنس گیا، پھر وہ تیسرے جمرے کے پاس ان کے سامنے آگیا، انھوں نے پھر اسے سات کنکریاں مار دیں یہاں تک کہ وہ دھنس گیا۔ راوی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (اب تم گویا) شیطان کو پتھر مارتے ہو اور اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی ملت کی پیروی کرتے ہو۔ دیکھیے: (مسند احمد: ۱/ ۲۹۷، ۲۹۸، وصحیح الترغیب والترهیب للألباني، رقم الحدیث: ۱۱۵۶) (3) محرم خیمے یا چھتری وغیرہ کا سایہ حاصل کر سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام حصین رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کیا تو بلال ؓ کو دیکھا کہ وہ آپ کی اونٹنی کی مہار تھامے ہوئے چل رہے تھے، اور اسامہ بن زید ؓ آپ کو گرمی سے بچانے کے لیے آپ کے اوپر اپنے کپڑے کا سایہ کیے ہوئے تھے۔ اور آپ حالت احرام میں تھے یہاں تک کہ آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی کی پھر لوگوں کو خطبہ دیا، اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، اور بہت سی باتیں ذکر کیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Yahya bin Al-Husain that his grandmother, Umm Husain said: “I performed Hajj during the Hajj of the Prophet (ﷺ) I saw Bilal (RA) holding on the reins of his she-camel, and Usamah bin Zaid holding his garment over him to shade him from the heat, while he was in Ihram, until he had stoned Jamratul ‘Aqabah. Then he addressed the people and praised Allah, and mentioned many things.” (Sahih)