باب: اس مسئلے (طلوع شمس سے قبل رمی کرنے)میں عورتوں کو رخصت ہے
)
Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: Concession For Women Regarding That)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3066.
ام المومنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنی ایک زوجہ محترمہ کو اجازت دی تھی کہ وہ مزدلفہ سے رات ہی کو چلی جائے اور جا کر جمرۂ عقبہ کو رمی کرے اور صبح کے وقت اپنے (منیٰ والے) خیمے میں پہنچ جائے۔ راوی حدیث حضرت عطاء بھی اپنی وفات تک اسی طرح کرتے رہے۔
تشریح:
امام نسائی رحمہ اللہ مختلف روایات میں تطبیق دینا چاہتے ہیں۔ بہت سی روایات میں صراحتاً حکم ہے کہ طلوع شمس سے قبل رمی نہ کی جائے اس روایت میں آپ نے اجازت دی ہے۔ گویا عورتوں کو طلوع شمس سے قبل رمی کی اجازت ہے کیونکہ وہ کمزور ہوتی ہیں، مزاحمت نہیں کر سکتیں۔ بعض نے صرف آپ کی زوجہ محترمہ کے لیے خصوصی اجازت کا قول ذکر کیا ہے۔ جو علماء طلوع شمس سے قبل بھی رمی کے قائل ہیں ان کی مضبوط ترین ایک دلیل حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی حدیث بھی ہے، جس میں ان کے چاند غروب ہونے کے بعد جلد نکلنے کا ذکر ہے۔ نماز فجر سے قبل انھوں نے رمی کی اور پھر فجر کی نماز پڑھی۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث: ۱۶۷۹) لیکن بعض محققین کے نزدیک یہ دلیل محل نظر ہے کیونکہ یہ عمل ان کی ذاتی رائے یا اجتہاد کے پیش نظر تھا۔ حدیث میں یہ تصریح نہیں کہ رمی بھی رسول اللہﷺ کی اجازت ہی سے کی گئی تھی، لہٰذا رسول اللہﷺ کا طلوع شمس سے قبل ہر کسی کو رمی کرنے سے روکنا، پھر یہ کہ آپ کا عمل بھی یہی تھا کہ آپ نے رمی طلوع شمس کے بعد ہی کی، اس بات کی واضح دلیل ہے کہ رمی طلوع شمس کے بعد ہی کرنی چاہیے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ کے نزدیک بجائے ترجیح کے تطبیق زیادہ مناسب ہے۔ ان کے نزدیک طلوع شمس کے بعد رمی، مستحب اور اس سے قبل جائز ہے۔ وہ حدیث میں وارد نہی کو نہی تنزیہ پر محمول کرتے ہیں۔ دلائل کی رو سے یہی موقف راجح معلوم ہوتا ہے۔ واللہ أعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتح الباري: ۳/ ۵۲۸، ۵۲۹، وذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۲۶/ ۴۱-۴۵)
ام المومنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنی ایک زوجہ محترمہ کو اجازت دی تھی کہ وہ مزدلفہ سے رات ہی کو چلی جائے اور جا کر جمرۂ عقبہ کو رمی کرے اور صبح کے وقت اپنے (منیٰ والے) خیمے میں پہنچ جائے۔ راوی حدیث حضرت عطاء بھی اپنی وفات تک اسی طرح کرتے رہے۔
حدیث حاشیہ:
امام نسائی رحمہ اللہ مختلف روایات میں تطبیق دینا چاہتے ہیں۔ بہت سی روایات میں صراحتاً حکم ہے کہ طلوع شمس سے قبل رمی نہ کی جائے اس روایت میں آپ نے اجازت دی ہے۔ گویا عورتوں کو طلوع شمس سے قبل رمی کی اجازت ہے کیونکہ وہ کمزور ہوتی ہیں، مزاحمت نہیں کر سکتیں۔ بعض نے صرف آپ کی زوجہ محترمہ کے لیے خصوصی اجازت کا قول ذکر کیا ہے۔ جو علماء طلوع شمس سے قبل بھی رمی کے قائل ہیں ان کی مضبوط ترین ایک دلیل حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی حدیث بھی ہے، جس میں ان کے چاند غروب ہونے کے بعد جلد نکلنے کا ذکر ہے۔ نماز فجر سے قبل انھوں نے رمی کی اور پھر فجر کی نماز پڑھی۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث: ۱۶۷۹) لیکن بعض محققین کے نزدیک یہ دلیل محل نظر ہے کیونکہ یہ عمل ان کی ذاتی رائے یا اجتہاد کے پیش نظر تھا۔ حدیث میں یہ تصریح نہیں کہ رمی بھی رسول اللہﷺ کی اجازت ہی سے کی گئی تھی، لہٰذا رسول اللہﷺ کا طلوع شمس سے قبل ہر کسی کو رمی کرنے سے روکنا، پھر یہ کہ آپ کا عمل بھی یہی تھا کہ آپ نے رمی طلوع شمس کے بعد ہی کی، اس بات کی واضح دلیل ہے کہ رمی طلوع شمس کے بعد ہی کرنی چاہیے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ کے نزدیک بجائے ترجیح کے تطبیق زیادہ مناسب ہے۔ ان کے نزدیک طلوع شمس کے بعد رمی، مستحب اور اس سے قبل جائز ہے۔ وہ حدیث میں وارد نہی کو نہی تنزیہ پر محمول کرتے ہیں۔ دلائل کی رو سے یہی موقف راجح معلوم ہوتا ہے۔ واللہ أعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتح الباري: ۳/ ۵۲۸، ۵۲۹، وذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۲۶/ ۴۱-۴۵)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ایک بیوی کو حکم دیا کہ وہ مزدلفہ کی رات ہی میں مزدلفہ سے کوچ کر جائیں، اور جمرہ عقبہ کے پاس آ کر اس کی رمی کر لیں، اور اپنے ٹھکانے پر پہنچ کر صبح کریں۔ اور عطا اپنی وفات تک ایسے ہی کرتے رہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Aishah (RA) bint Talhah narrated from her maternal aunt 'Aishah (RA), the Mother of the Believers, that the Messenger of Allah (ﷺ) told one of his wives to depart from Jam’ (Al-Muzdalifah) on the night of Jam’, to go to Jamratul ‘Aqabah and stone it, then come back to her camp before morning. And ‘Ata’ used to do that until he died.(Hasan)