Sunan-nasai:
The Book of Jihad
(Chapter: The Obligation Of Jihad)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3086.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ اور ان کے کچھ ساتھی مکہ مکرمہ میں نبیﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! ہم کافر مشرک تھے تو عزت والے تھے‘ جب ہم مسلمان ہوئے تو ذلیل ہوگئے۔ آپ نے فرمایا: ”(فی الحال) مجھے معاف اور درگزر کرنے کا حکم دیا گیا ہے، لہٰذا تم لڑائی نہ کرو۔“ پھر جب ہم اللہ تعالیٰ کے حکم سے مدینہ منورہ پہنچ گئے تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں لڑنے کا حکم دیا، لیکن بعض مسلمان لڑائی سے رکے رہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: ﴿أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ﴾ ”(اے نبی!) کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ تم اپنے ہاتھ (لڑائی سے) روکے رکھو اور نماز قائم کرو۔“
تشریح:
: ”ذلیل ہوگئے“ یعنی ہم کفر کی حالت میں تو ظلم کا بدلہ لے لیا کرتے تھے۔ اب ہمیں ظلم کے سامنے ہاتھ اٹھانے اور ظلم کا بدلہ لینے کی اجازت نہیں۔ اور ظاہراً یہ ذلالت والی حالت ہے کہ انسان دوسروں کے لیے تختہ مشق بنا رہے، لیکن شریعت کا یہ حکم ایک عظیم مصلحت کی بنا پر تھا۔ اگر اس وقت مسلمانوں کو مزاحمت یا جوابی جارحیت کی اجازت دی جاتی تو اسلام کی نوزائیدہ تحریک اور اس کے قیمتی کارکن ختم ہوجاتے جب کہ صبروعفو کا حکم دے کر ان کی قوت برداشت کو انتہائی حد تک بڑھا دیا گیا اور وہ آئندہ دور میں جنگوں کی سختی کو حیران کن حد تک برداشت کرنے کے قابل بن گئے اور ان کی اخلاقی تربیت بھی درجہ کمال کو پہنچ گئی۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ اور ان کے کچھ ساتھی مکہ مکرمہ میں نبیﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! ہم کافر مشرک تھے تو عزت والے تھے‘ جب ہم مسلمان ہوئے تو ذلیل ہوگئے۔ آپ نے فرمایا: ”(فی الحال) مجھے معاف اور درگزر کرنے کا حکم دیا گیا ہے، لہٰذا تم لڑائی نہ کرو۔“ پھر جب ہم اللہ تعالیٰ کے حکم سے مدینہ منورہ پہنچ گئے تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں لڑنے کا حکم دیا، لیکن بعض مسلمان لڑائی سے رکے رہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: ﴿أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ﴾ ”(اے نبی!) کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ تم اپنے ہاتھ (لڑائی سے) روکے رکھو اور نماز قائم کرو۔“
حدیث حاشیہ:
: ”ذلیل ہوگئے“ یعنی ہم کفر کی حالت میں تو ظلم کا بدلہ لے لیا کرتے تھے۔ اب ہمیں ظلم کے سامنے ہاتھ اٹھانے اور ظلم کا بدلہ لینے کی اجازت نہیں۔ اور ظاہراً یہ ذلالت والی حالت ہے کہ انسان دوسروں کے لیے تختہ مشق بنا رہے، لیکن شریعت کا یہ حکم ایک عظیم مصلحت کی بنا پر تھا۔ اگر اس وقت مسلمانوں کو مزاحمت یا جوابی جارحیت کی اجازت دی جاتی تو اسلام کی نوزائیدہ تحریک اور اس کے قیمتی کارکن ختم ہوجاتے جب کہ صبروعفو کا حکم دے کر ان کی قوت برداشت کو انتہائی حد تک بڑھا دیا گیا اور وہ آئندہ دور میں جنگوں کی سختی کو حیران کن حد تک برداشت کرنے کے قابل بن گئے اور ان کی اخلاقی تربیت بھی درجہ کمال کو پہنچ گئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ عبدالرحمٰن بن عوف ؓ اور ان کے کچھ دوست نبی اکرم ﷺ کے پاس جب آپ مکہ میں تشریف فرما تھے آئے، اور انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! جب ہم مشرک تھے عزت سے تھے، اور جب سے ایمان لے آئے ذلیل و حقیر ہو گئے۔ آپ نے فرمایا: ”مجھے عفو و درگزر کا حکم ملا ہوا ہے۔ تو (جب تک لڑائی کا حکم نہ مل جائے) لڑائی نہ کرو“، پھر جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں مدینہ بھیج دیا، اور ہمیں جنگ کا حکم دے دیا۔ تو لوگ (بجائے اس کے کہ خوش ہوتے) باز رہے (ہچکچائے، ڈرے) تب اللہ تعالیٰ نے آیت: «أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ» ”کیا تم نے انہیں نہیں دیکھا جنہیں حکم کیا گیا تھا کہ اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو، اور نمازیں پڑھتے رہو، اور زکاۃ ادا کرتے رہو۔ پھر جب انہیں جہاد کا حکم دیا گیا تو اسی وقت ان کی ایک جماعت لوگوں سے اس قدر ڈرنے لگی جیسے اللہ تعالیٰ کا ڈر ہو، بلکہ اس سے بھی زیادہ اور کہنے لگے: اے ہمارے رب! تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کر دیا؟ کیوں ہمیں تھوڑی سی زندگی اور نہ جینے دی؟ آپ کہہ دیجئیے کہ دنیا کی سود مندی تو بہت ہی کم ہے اور پرہیزگاروں کے لیے تو آخرت ہی بہتر ہے اور تم پر ایک دھاگے کے برابر بھی ستم روا نہ رکھا جائے گا (النساء: ۷۷) اخیر تک نازل فرمائی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn ‘Abbas that ‘Abdur-Rahman bin ‘Awf and some his companions came to the Prophet (ﷺ) in Makkah and said: “Messenger of Allah (ﷺ)! We were respected when we were idolators and when we believed, we were humiliated.” He said: “I have been commanded to pardon, so do not fight.” Then, when Allah caused us to move to Al-Madinah, He commanded us to fight, but they refrained. Then Allah, the Mighty and Sublime, revealed: Have you not seen those who were told to hold back the hands (from fighting) and perform As-Salah” (Sahih)