Sunan-nasai:
The Book of Jihad
(Chapter: The Obligation Of Jihad)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3094.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہﷺ اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے تو بہت سے عرب مرتد ہوگئے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ابوبکر! آپ ان عربوں سے کس بنیاد پر لڑیں گے؟ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: رسول اللہﷺنے فرمایا: ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑائی جاری رکھوں حتیٰ کہ وہ گواہی دے دیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں اور نماز قائم کریں اور زکاۃ اداکریں۔“ اللہ کی قسم! اگر وہ بکری کا ایک بچہ بھی روک لیں جو وہ رسول اللہﷺ کے دور میں دیا کرتے تھے تو میں اس پر بھی ان سے لڑوں گا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: جب میں نے حضرت ابوبکر ؓ کی رائے پر غور کیا (اور دیکھا کہ) ان کا سینہ اللہ کی طرف سے کھول دیا گیا ہے، تو مجھے یقین ہوگیا ہے کہ یہی بات برحق ہے۔ ابوعبدالرحمن (امام نسائیl) بیان کرتے ہیں کہ راوی عمران قطان علم حدیث میں قوی نہیں اور یہ حدیث (سند کے لحاظ سے) غلط ہے۔ صحیح روایت پہلی (۳۰۹۳، ۳۰۹۴) ہے، یعنی حدیثِ زھری عن عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبۃ عن أبی ھریرہ۔
تشریح:
(۱) امام نسائی یہاں یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ مذکورہ روایت میں عمران ابوالعوام قطان علم حدیث میں قوی نہیں ہیں۔ وہ اس روایت کو حضرت انس کی مسند بناتے ہیں جبکہ دیگر روای اس حدیث کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مسند بناتے ہیں جیسا کہ گزشتہ اجادیث: ۳۰۹۳ اور ۳۰۹۴ سے واضح ہے اور درست بھی یہی ہے۔ تاہم اس اختلاف سے حدیث کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، حدیث دوسری اسناد کے ساتھ بالکل صحیح ہے۔ واللہ أعلم۔ (2) ”مرتد ہوگئے“ مرتدین کی کئی قسمیں ہیں مگر یہاں اختلاف مانعین زکاۃ کے بارے میں ہے جن کا موقف تھا کہ زکاۃ صرف رسول اللہﷺ کے ساتھ خاص تھی، کوئی دوسرا وصول نہیں کرسکتا، حالانکہ آپ نے زکاۃ بطور امیر یا حاکم وصول فرماتی تھی ورنہ آپ کے لیے تو جائز ہی نہ تھی، لہٰذا اب جو نبیﷺ کا نائب بنے گا وہ بھی بطور حاکم وصول کرے گا ورنہ افراتفری پھیل جائے گی، زکاۃ کا فریضہ ترک ہوجائے گا، حالانکہ رسول اللہﷺ نے نماز اور زکاۃ دونوں کو مسلمان ہونے کے لیے شرط قراردیا ہے، نیز زکاۃ نہ دینے والا حکومت کا باغی ہے اور باغی سے لڑائی بالاتفاق جائز ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ یہ کلمہ گو ہیں۔ ان سے لڑائی جائز نہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دلائل سے ان کی سمجھ میں آگیا کہ مسلمان ہونے کے لیے صرف کلمہ ہی کافی نہیں کچھ دوسرے امور بھی ضروری ہیں جیسا کہ حدیث نبوی مذکور میں وضاحت ہے۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 1 / 549 :
أخرجه أبو داود ( 2641 ) و الترمذي ( 2 / 100 ) عن سعيد بن يعقوب الطالقاني ،
و النسائي ( 2 / 161 ، 269 ) عن حبان ( و هو ابن موسى المروزي ) و أحمد
( 3 / 199 ) عن علي بن إسحاق ( و هو السلمي المروزي ) كلهم عن عبد الله بن
المبارك أخبرنا حميد الطويل عن أنس بن مالك قال : قال رسول الله صلى الله
عليه وسلم : فذكره .
و قال الترمذي : " حديث حسن صحيح " .
و تابعه ابن وهب : أخبرني يحيى بن أيوب عن حميد الطويل به .
أخرجه أبو داود ( 2642 ) و الطحاوي في " شرح معاني الآثار " ( 2 / 123 ) .
قلت : و هذا إسناد صحيح على شرط الشيخين ، و كذلك طريق حبان المروزي .
و رواه محمد بن عبد الله الأنصاري قال : أنبأنا حميد قال : سأل ميمون بن سياه
أنس بن مالك قال : يا أبا حمزة ما يحرم دم المسلم و ماله ، فقال :
فذكره موقوفا .
و إسناده صحيح أيضا ، و لا منافاة بينه و بين المرفوع ، فكل صحيح . على أن
المرفوع أصح ، و رواته أكثر .
و فيه دليل على بطلان الحديث الشائع اليوم على ألسنة الخطباء و الكتاب :
أن النبي صلى الله عليه وسلم قال في أهل الذمة :
" لهم ما لنا ، و عليهم ما علينا " .
و هذا مما لا أصل له عنه صلى الله عليه و سلم ، بل هذا الحديث الصحيح يبطله ،
لأنه صريح في أنه صلى الله عليه وسلم إنما قال ذلك فيمن أسلم من المشركين و أهل
الكتاب ، و عمدة أولئك الخطباء على بعض الفقهاء الذين لا علم عندهم بالحديث
الشريف ، كما بينته في " الأحاديث الضعيفة و الموضوعة " ( رقم 1103 ) فراجعه
فإنه من المهمات .
و للحديث شاهد بلفظ آخر ، و هو :
" من أسلم من أهل الكتاب فله أجره مرتين ، و له مثل الذي لنا ، و عليه مثل الذي
علينا ، و من أسلم من المشركين فله أجره ، و له مثل الذي لنا ، و عليه مثل الذي
علينا " .
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہﷺ اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے تو بہت سے عرب مرتد ہوگئے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ابوبکر! آپ ان عربوں سے کس بنیاد پر لڑیں گے؟ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: رسول اللہﷺنے فرمایا: ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑائی جاری رکھوں حتیٰ کہ وہ گواہی دے دیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں اور نماز قائم کریں اور زکاۃ اداکریں۔“ اللہ کی قسم! اگر وہ بکری کا ایک بچہ بھی روک لیں جو وہ رسول اللہﷺ کے دور میں دیا کرتے تھے تو میں اس پر بھی ان سے لڑوں گا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: جب میں نے حضرت ابوبکر ؓ کی رائے پر غور کیا (اور دیکھا کہ) ان کا سینہ اللہ کی طرف سے کھول دیا گیا ہے، تو مجھے یقین ہوگیا ہے کہ یہی بات برحق ہے۔ ابوعبدالرحمن (امام نسائیl) بیان کرتے ہیں کہ راوی عمران قطان علم حدیث میں قوی نہیں اور یہ حدیث (سند کے لحاظ سے) غلط ہے۔ صحیح روایت پہلی (۳۰۹۳، ۳۰۹۴) ہے، یعنی حدیثِ زھری عن عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبۃ عن أبی ھریرہ۔
حدیث حاشیہ:
(۱) امام نسائی یہاں یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ مذکورہ روایت میں عمران ابوالعوام قطان علم حدیث میں قوی نہیں ہیں۔ وہ اس روایت کو حضرت انس کی مسند بناتے ہیں جبکہ دیگر روای اس حدیث کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مسند بناتے ہیں جیسا کہ گزشتہ اجادیث: ۳۰۹۳ اور ۳۰۹۴ سے واضح ہے اور درست بھی یہی ہے۔ تاہم اس اختلاف سے حدیث کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، حدیث دوسری اسناد کے ساتھ بالکل صحیح ہے۔ واللہ أعلم۔ (2) ”مرتد ہوگئے“ مرتدین کی کئی قسمیں ہیں مگر یہاں اختلاف مانعین زکاۃ کے بارے میں ہے جن کا موقف تھا کہ زکاۃ صرف رسول اللہﷺ کے ساتھ خاص تھی، کوئی دوسرا وصول نہیں کرسکتا، حالانکہ آپ نے زکاۃ بطور امیر یا حاکم وصول فرماتی تھی ورنہ آپ کے لیے تو جائز ہی نہ تھی، لہٰذا اب جو نبیﷺ کا نائب بنے گا وہ بھی بطور حاکم وصول کرے گا ورنہ افراتفری پھیل جائے گی، زکاۃ کا فریضہ ترک ہوجائے گا، حالانکہ رسول اللہﷺ نے نماز اور زکاۃ دونوں کو مسلمان ہونے کے لیے شرط قراردیا ہے، نیز زکاۃ نہ دینے والا حکومت کا باغی ہے اور باغی سے لڑائی بالاتفاق جائز ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ یہ کلمہ گو ہیں۔ ان سے لڑائی جائز نہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دلائل سے ان کی سمجھ میں آگیا کہ مسلمان ہونے کے لیے صرف کلمہ ہی کافی نہیں کچھ دوسرے امور بھی ضروری ہیں جیسا کہ حدیث نبوی مذکور میں وضاحت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ رحلت فرما گئے، تو عرب (دین اسلام سے) مرتد ہو گئے، عمر ؓ نے کہا: ابوبکر! آپ عربوں سے کیسے لڑائی لڑیں گے۔ ابوبکر ؓ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ لوگ گواہی دینے لگیں کہ کوئی معبود برحق نہیں ہے سوائے اللہ کے اور میں اللہ کا رسول ہوں، اور نماز قائم کرنے لگیں، اور زکاۃ دینے لگیں، قسم اللہ کی، اگر انہوں نے ایک بکری کا چھوٹا بچہ دینے سے انکار کیا جسے وہ رسول اللہ ﷺ کو (زکاۃ میں) دیا کرتے تھے تو میں اس کی خاطر بھی ان سے لڑائی لڑوں گا۔ عمر ؓ کہتے ہیں: جب میں نے ابوبکر ؓ کی رائے دیکھی کہ انہیں اس پر شرح صدر حاصل ہے تو مجھے یقین ہو گیا کہ وہ حق پر ہیں۔“ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: عمران بن قطان حدیث میں قوی نہیں ہیں۔ یہ حدیث صحیح نہیں ہے، اس سے پہلے والی حدیث صحیح و درست ہے، زہری کی حدیث کا سلسلہ «عن عبيد اللہ بن عبداللہ بن عتبة عن أبي هريرة» ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Anas bin Malik (RA) said: “When the Messenger of Allah (ﷺ) died, some of the ‘Arabs apostatized. ‘Umar said: ‘Abu Bakr, how can you fight the ‘Arabs? Abu Bakr (RA) said: ‘The Messenger of Allah (ﷺ) said: I have been commanded to fight the people until they testify that La ilaha illallah (there is none worthy of worship except Allah) and that I am the Messenger of Allah (ﷺ), and establish prayer and pay Zakah?’ By Allah, if they withhold from me a small she-goat that they used to give to the Messenger of Allah (ﷺ) I will fight them for withholding it.’ (‘Umar said) ‘By Allah, when I realized that Abu Bakr was confident about this idea, then I knew that this was the truth.” (Sahih) Abu ‘Abdur-Rahman (An-Nasa’i) said: ‘Imran Al-Qattan is not strong in Hadith, and this narration is a mistake. The one that is before it is the correct narration of Az Zuhri, from ‘Ubaidullah bin ‘Abdullah bin ‘Utbah, from Abu Hurairah (RA).