کتاب: کون سی چیزیں غسل واجب کرتی ہیں اور کون سی نہیں؟
(
باب: حضر(حالت اقامت)میں تیمم کرنا
)
Sunan-nasai:
Mention When Ghusal (A Purifying Bath) Is Obligatory And When It Is Not
(Chapter: Tayammum When One Is Not Traveling)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
312.
حضرت عبدالرحمٰن بن ابزی سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضرت عمر ؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا: تحقیق میں جنبی ہوگیا اور پانی نہ پاسکا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: تو نماز نہ پڑھ۔ حضرت عمار بن یاسر ؓ کہنے لگے: اے امیر المومنین! کیا آپ کو یاد نہیں کہ ایک دفعہ میں اور آپ ایک لشکر میں تھے۔ ہم دونوں جنبی ہوگئے تو ہمیں پانی نہ ملا۔ آپ نے تو نماز نہ پڑھی لیکن میں اچھی طرح مٹی میں لوٹ پوٹ ہوا اور نماز پڑھ لی، پھر ہم نبی ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے اس بات کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’تجھے اتنا کافی تھا۔‘‘ چنانچہ نبی ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے، پھر ان میں پھونک ماری، پھر ان دونوں کے ساتھ چہرے اور ہتھیلیوں کا مسح کیا۔ سلمہ کو شک ہے، انھیں یاد نہیں کہ (مسح) صرف ہتھیلیوں پر یا کہنیوں تک کیا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ہم تمھیں ذمے دار بناتے ہیں، اس (روایت) کا جس کے تم ذمے دار بنے ہو۔
تشریح:
(1) حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کا مٹی میں لوٹ پوٹ ہونا ایک اجتہادی عمل تھا اور شاید اس بنا پر تھا کہ تیمم بھی غسل کی جگہ کفایت کرسکے گا جب وہ اس کی مثل ہو، یعنی پورے بدن پر مٹی لگے۔ (2) اگر اجتہاد کرنے والے سے غلطی ہو جائے تو اسے ملامت نہیں کی جائے گی۔ (3) جو آدمی اپنے اجتہاد سے کوئی عمل کرلے اور بعد میں اسے معلوم ہو کہ اس کا عمل قرآن وسنت کے منافی تھا تو اس کے لیے اسے دوبارہ لوٹانا ضروری نہیں۔ (4) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تیمم صرف چہرے اور ہتھیلیوں تک ایک ضرب کے ساتھ ہے۔ دو ضرب اور کہنیوں تک کی روایات کلام سے خالی نہیں، اس لیے محدثین نے ایک ضرب کے ساتھ ہتھیلیوں تک تیمم کو ترجیح دی ہے کیونکہ یہ صحیح ترین روایات ہیں۔ احناف نے دوسرے طریقے کو اختیار کیا ہے اور ان روایات کا جواب یہ دیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف یہ بتلایا ہے کہ وضو والا تیمم ہی غسل کے لیے کافی ہے۔ تیمم کا طریقہ بتلانا مقصود نہ تھا، مگر یہ بات قابل غور ہے کہ بیان کرنے والے صحابہ نے تو یہ مفہوم نہیں سمجھا۔ حاضرین کا فہم معتبر ہے یا غیر حاضرین کا؟ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے یوں تطبیق دی ہے کہ ایک ضرب اور ہتھیلیوں تک تیمم کافی ہے، البتہ دو ضرب کے ساتھ کہنیوں تک افضل اور مستحب ہے لیکن یہ تطبیق بھی محل نظر ہے کیونکہ استحباب اور افضلیت کے اثبات کے لیے صحیح دلیل کا ہونا ضروری ہے۔ تیمم سے متعلق دیگر احکام و مسائل کے لیے دیکھیے: کتاب الغسل و التیمم کا ابتدائیہ۔ (5) حضرت عمر اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہا غسل کی جگہ تیمم کو کافی نہیں سمجھتے تھے، مگر یہ صرف ان کی احتیاط تھی ورنہ قرآن مجید میں آیت تیمم کے اندر جنابت سے بھی تیمم کی اجازت ہے۔ دیکھیے: (النسآء ۴۳:۴ و المائدة ۶:۵) (6) مذکورہ حدیث پر بعض نسخوں میں عنوان قائم نہیں کیا گیا کیونکہ اس سے پہلے والی حدیث پر بھی یہی عنوان قائم کیا گیا ہے جس سے یہ محض تکرار ہی محسوس ہوتی ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح. وأخرجه البخاري ومسلم، وابن حبان (1301
و 1302) ، وأبو عوانة في "صحاحهم ") .
إسناده: حدثنا محمد بن سليمان الأنباري: نا أبو معاوية الضرير عن
الأعمش عن شقيق.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله رجال الشيخين؛ غير محمد بن سليمان
الأنباري، وهو ثقة.
والحديث أخرجه أحمد (4/264) : ثنا أبو معاوية... به.
وأخرجه البخاري (1/362) ، ومسلم (1/192) ، والنسائي (1/61) ،
والدارقطني (ص 66) من طرق أخرى عن أبي معاوية... به؛ وزاد أحمد:
لم يُجِزِ الأعمش الكفين. وزاد مسلم:
ضربة واحدة.
ثم أخرجه هو، وأحمد (4/265) ، وأبو عوانة في "صحيحه " (1/303- 304
و 304- 305) ، والبيهقي (1/211- 226) من طرق أخرى عن الأعمش... به.
وقال البيهقي:
" لا يشك حديثي في صحة إسناده ". وزاد أحمد إثر الأية: قال:
فما درى عبد الله ما يقول! وفال: لو رخصنا... إلخ.
وإسناده صحيح على شرطهما.
حضرت عبدالرحمٰن بن ابزی سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضرت عمر ؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا: تحقیق میں جنبی ہوگیا اور پانی نہ پاسکا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: تو نماز نہ پڑھ۔ حضرت عمار بن یاسر ؓ کہنے لگے: اے امیر المومنین! کیا آپ کو یاد نہیں کہ ایک دفعہ میں اور آپ ایک لشکر میں تھے۔ ہم دونوں جنبی ہوگئے تو ہمیں پانی نہ ملا۔ آپ نے تو نماز نہ پڑھی لیکن میں اچھی طرح مٹی میں لوٹ پوٹ ہوا اور نماز پڑھ لی، پھر ہم نبی ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے اس بات کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’تجھے اتنا کافی تھا۔‘‘ چنانچہ نبی ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے، پھر ان میں پھونک ماری، پھر ان دونوں کے ساتھ چہرے اور ہتھیلیوں کا مسح کیا۔ سلمہ کو شک ہے، انھیں یاد نہیں کہ (مسح) صرف ہتھیلیوں پر یا کہنیوں تک کیا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ہم تمھیں ذمے دار بناتے ہیں، اس (روایت) کا جس کے تم ذمے دار بنے ہو۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کا مٹی میں لوٹ پوٹ ہونا ایک اجتہادی عمل تھا اور شاید اس بنا پر تھا کہ تیمم بھی غسل کی جگہ کفایت کرسکے گا جب وہ اس کی مثل ہو، یعنی پورے بدن پر مٹی لگے۔ (2) اگر اجتہاد کرنے والے سے غلطی ہو جائے تو اسے ملامت نہیں کی جائے گی۔ (3) جو آدمی اپنے اجتہاد سے کوئی عمل کرلے اور بعد میں اسے معلوم ہو کہ اس کا عمل قرآن وسنت کے منافی تھا تو اس کے لیے اسے دوبارہ لوٹانا ضروری نہیں۔ (4) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تیمم صرف چہرے اور ہتھیلیوں تک ایک ضرب کے ساتھ ہے۔ دو ضرب اور کہنیوں تک کی روایات کلام سے خالی نہیں، اس لیے محدثین نے ایک ضرب کے ساتھ ہتھیلیوں تک تیمم کو ترجیح دی ہے کیونکہ یہ صحیح ترین روایات ہیں۔ احناف نے دوسرے طریقے کو اختیار کیا ہے اور ان روایات کا جواب یہ دیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف یہ بتلایا ہے کہ وضو والا تیمم ہی غسل کے لیے کافی ہے۔ تیمم کا طریقہ بتلانا مقصود نہ تھا، مگر یہ بات قابل غور ہے کہ بیان کرنے والے صحابہ نے تو یہ مفہوم نہیں سمجھا۔ حاضرین کا فہم معتبر ہے یا غیر حاضرین کا؟ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے یوں تطبیق دی ہے کہ ایک ضرب اور ہتھیلیوں تک تیمم کافی ہے، البتہ دو ضرب کے ساتھ کہنیوں تک افضل اور مستحب ہے لیکن یہ تطبیق بھی محل نظر ہے کیونکہ استحباب اور افضلیت کے اثبات کے لیے صحیح دلیل کا ہونا ضروری ہے۔ تیمم سے متعلق دیگر احکام و مسائل کے لیے دیکھیے: کتاب الغسل و التیمم کا ابتدائیہ۔ (5) حضرت عمر اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہا غسل کی جگہ تیمم کو کافی نہیں سمجھتے تھے، مگر یہ صرف ان کی احتیاط تھی ورنہ قرآن مجید میں آیت تیمم کے اندر جنابت سے بھی تیمم کی اجازت ہے۔ دیکھیے: (النسآء ۴۳:۴ و المائدة ۶:۵) (6) مذکورہ حدیث پر بعض نسخوں میں عنوان قائم نہیں کیا گیا کیونکہ اس سے پہلے والی حدیث پر بھی یہی عنوان قائم کیا گیا ہے جس سے یہ محض تکرار ہی محسوس ہوتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبدالرحمٰن بن ابزی سے روایت ہے کہ ایک شخص عمر ؓ کے پاس آیا، اور کہا کہ میں جنبی ہو گیا ہوں اور مجھے پانی نہیں ملا، (کیا کروں؟) عمر ؓ نے کہا: (غسل کئے بغیر) نماز نہ پڑھو، اس پر عمار بن یاسر ؓ نے کہا: امیر المؤمنین! کیا آپ کو یاد نہیں کہ میں اور آپ دونوں ایک سریہ (فوجی مہم) میں تھے، تو ہم جنبی ہو گئے، اور ہمیں پانی نہیں ملا، تو آپ نے تو نماز نہیں پڑھی، اور رہا میں تو میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ کر نماز پڑھ لی، پھر ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، اور آپ سے ہم نے اس کا ذکر کیا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”تمہارے لیے بس اتنا ہی کافی تھا“، پھر آپ ﷺ نے دونوں ہاتھ زمین پر مارا، پھر ان میں پھونک ماری، پھر ان دونوں سے اپنے چہرہ اور دونوں ہتھیلیوں پر مسح کیا- سلمہ کو شک ہے، وہ یہ نہیں جان سکے کہ اس میں مسح کا ذکر دونوں کہنیوں تک ہے یا دونوں ہتھیلیوں تک - (عمار ؓ کی بات سن کر) عمر ؓ نے کہا: جو تم کہہ رہے ہو ہم تمہیں کو اس کا ذمہ دار بناتے ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
”ہم تمہیں کو اس کا ذمہ دار بناتے ہیں“: مطلب یہ ہے کہ مجھے یہ یاد نہیں اس لیے میں یہ بات نہیں کہہ سکتا تم اپنی ذمہ داری پر اسے بیان کرنا چاہو تو کرو، عمر اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما دونوں کی رائے یہ ہے کہ جنبی کے لیے تیمم درست نہیں، ان کے علاوہ باقی تمام صحابہ کرام اور اکثر علماء اور مجتہدین کا قول ہے کہ تیمم محدث (جس کا وضو ٹوٹ گیا ہو) اور جنبی (جسے احتلام ہوا ہو) دونوں کے لیے ہے، اس قول کی تائید کئی مشہور حدیثوں سے ہوتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn ‘Abdur-Rahman bin Abza from his father that a man came to ‘Umar and said: “I have become Junub and I do not have any water.” ‘Umar said: “Do not pray.” But ‘Ammar bin Yasir said: “Commander of the Believers! Don’t you remember when you and I were on a campaign and we became Junub and could not find water? You did not pray, but I rolled in the dust and prayed. Then we came to the Prophet (ﷺ) and told him about that, and he said: ‘It would have been sufficient for you (to do this),’ then the Prophet (ﷺ) struck his hands on the ground and blew on them, then wiped his face and hands with them” — (one of the narrators) Salamah was uncertain and did not know whether that was up to the elbows or just the hands. And ‘Umar said: “We will let you bear the burden of what you took upon yourself.” (Sahih)